محمد الا رسول‘‘ کے خلاف رسول اﷲﷺ جماعت مرسلین سے خارج ہوںگے۔ کیونکہ پھر تو اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جتنے اشخاص صفت رسول سے موصوف تھے۔ وہ محمدﷺ سے پیشتر فوت ہوچکے ہیں۔ پس آپ معاذ اﷲ رسول برحق ثابت نہ ہوںگے اور ظاہر ہے کہ جس معنی سے قرآن شریف کی آیات میں تعارض واقع ہو۔ خصوصاً کسی نبی برحق کی رسالت کا انکار لازم آتا ہو۔ وہ معنی بالکل باطل ہیں۔ دیگر یہی الفاظ ’’قد خلت من قبلہ الرسل (مائدہ:۷۵)‘‘ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حق میں دربارہ نفی الوہیت وارد ہوئے ہیں۔ پس اگر جہالت سے الف لام کو استغراقی مانا جائے تو لا بد تسلیم کرنا پڑے گا کہ رسول اﷲﷺ اس آیت کے نزول کے وقت فوت ہوگئے تھے اور یہ بالکل باطل ہے۔ یا معاذ اﷲ! انکار نبوت محمدی وعیسوی لازم آئے گا۔ کیونکہ اس صورت میں معنی یہ ہوںگے کہ سب رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پیشتر فوت ہوگئے ہیں۔ حالانکہ جب جناب رسول اﷲﷺ حضرت مسیح علیہ السلام کے رفع کے کئی زمانے بعد پیدا ہوئے اور شرف نبوت سے ممتاز ہوئے اور اس آیت کے نزول کے وقت زندہ موجود تھے۔ کیونکہ یہ آیت آپ ہی پر اتری۔ یہ ایک دقیق نکتہ ہے۔ اس کا ادراک کسی علم نحو کے مذاق سے خالی اردو خواں کا کام نہیں۔
دوسری وجہ الرسل کا الف لام استغراقی نہ ہونے کی یہ ہے کہ آیت ’’وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ کا شان نزول یہ ہے کہ انحضرتﷺ کی نسبت جنگ احد میں غلط خبر اڑ گئی کہ آپؐ شہید ہوگئے اور بعض لوگوں نے نبوت اور موت میں منافات سمجھی اور ارتداد کا راستہ اختیار کرنے لگے۔ اﷲتعالیٰ نے ان کے خیال کو باطل ثابت کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی اور ظاہر کر دیا کہ نبوت اور موت میں منافات نہیں۔ کیونکہ جس طرح بعض اور رسولوں کے حق میں ان کے مرجانے سے ان کی نبوت میں کوئی قدح واقع نہیں ہوئی۔ اسی طرح اگر آنحضرتﷺ بھی طبعی موت سے فوت ہو جائیں یا میدان جنگ میں شہید ہو جائیں تو اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ آپ نبی برحق نہیں ہیں۔ پس چونکہ اس آیت سے اﷲ تعالیٰ کا مقصود یہ ہے کہ نبوت اور موت میں منافات نہیں ہے۔ اس لئے استغراق افراد یعنی سب رسولوں کو فوت شدہ ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کیونکہ مشککین کا قول سالبہ کلیہ ہے کہ کوئی نبی مر نہیں سکتا اور اﷲتعالیٰ کو اس کی تردید منظور ہے اور معلوم ہے کہ سالبہ کلکہ کی نقیض موجبہ جزئیہ ہوتی ہے۔ نہ کہ موجبہ کلیہ۔