جائے۔ آخرکار دستور کی ترمیمات سے وہ سب دور ہوکر رہیں گے۔ اب تک جو کچھ ہوا ہے۔ وہ باشندوں کی مرضی کے دباؤ ہی سے ہوا ہے اور یہی دباؤ آئندہ فیصلہ کرے گا کہ دو متصادم نظریات میں سے کس کو فنا ہونا اور کس کو باقی رہنا ہے۔ لہٰذا محض اس تصادم کی موجودگی اس بات کی دلیل نہیں ٹھہرائی جاسکتی کہ یہاں سرے سے اسلامی ریاست کی کوئی بنیاد ہی نہیں رکھی گئی ہے۔
بعض دوسری بحثیں
قرارداد مقاصد پر یہ بحث صرف اسی حد پر نہیں رک گئی کہ وہ فی الواقع ایک اسلامی ریاست کی بنا رکھتی ہے یا نہیں۔ بلکہ آگے چل کر وہ دوراستوں پر بڑھتی چلی گئی ہے۔ ایک یہ کہ پاکستان کا بنیادی تصور اور مطمح نظر کیا تھا؟ آیا ایک اسلامی ریاست یا ایک قومی جمہوری دنیوی ریاست؟ دوسرے یہ کہ بجائے خود اسلامی ریاست کا تصور کیا ہے؟ علماء اس کو کیا سمجھتے ہیں اور اگر پاکستان اس طرح کی ایک ریاست بن جائے تو اس کے نتائج کیا ہوںگے؟ ص۲۰۰ کی آخری سطروں میں عدالت کہتی ہے کہ: ’’چونکہ ان مطالبات کی بنیاد اسلامی ریاست کے اس نظریہ پر قائم ہے کہ ریاست میں مسلمانوں اور غیرمسلموں کے حقوق یکساں نہیں ہیں۔ اس لئے ہمیں علماء کی مدد سے اس امر کا تفصیلی جائزہ لینا پڑا کہ اسلامی ریاست کا یہ نظریہ فی الواقع ہے کیا اور اس کے تضمنات کیا ہیں۔‘‘ اس کے بعد مسلسل ۳۰صفحے تک اسلام، اسلامی ریاست، اس میں قانون سازی کا ہوسکنا یا نہ ہوسکنا، اس میں غیرمسلموں کی پوزیشن، مسلمان کی تعریف اور اس میں علماء کے اختلافات، مرتد کی سزا، دوسرے مذاہب کا حق تبلیغ، نظریۂ جہاد، دارالاسلام ودارالحرب، مسلمانوں اور غیرمسلموں کی جنگ میں کافر حکومت کی مسلم رعایا کا مؤقف، اسیران جنگ کی پوزیشن، غیرمسلم ممالک میں مسلم رعایا کا اندیشہ ناک انجام، بین الاقوامی قانون سے اسلامی قانون کا تصادم، دارالاسلام میں فنون لطیفہ۱؎ کا خطرناک مستقبل، غرض ہر وہ مسئلہ زیر بحث آیا ہے۔ جس کے آئینے میں پاکستان کی وہ بھیانک تصویر دیکھی جاسکے جو اس کے ایک اسلامی ریاست ہونے سے بن جائے گی۔ پھر ص۲۳۱ پر اس بحث کے لئے عذر یہ پیش کیاگیا ہے۔
’’ہم نے اسلامی ریاست کے موضوع پر یہ ذرا طویل بحث اس لئے نہیں کی ہے کہ ہم اس طرح کی ایک ریاست کے خلاف یا اس کے حق میں ایک مقالہ لکھنا چاہتے تھے۔ بلکہ ہمارے
۱؎ آخر اس بحث کے ’’متعلق‘‘ ہونے کے دلائل کیا ہوںگے؟