وقت نہیں اٹھایا گیا تھا۔ مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر ایک فرقے کے افسروں کی وہ روش ہو جو قادیانی افسروں کی ہے تو ایک غیرمذہبی حکومت میں پبلک وہ مطالبہ نہیں کر سکتی جو قادیانیوں کے بارے میں کیاگیا ہے؟ اس لئے ہم جیسے عام لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ ان مطالبات کا جوڑ قرارداد مقاصد سے کیسے جالگتا ہے؟
اب دیکھئے کہ خود قرارداد مقاصد کے متعلق عدالت کی رائے گرامی کیا ہے: ’’یہ بات کھلے بندوں تسلیم کی گئی ہے کہ یہ قرارداد اگرچہ الفاظ، فقروں اور دفعات میں بڑی پرشکوہ ہے۔ مگر ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہے اور بات صرف اتنی ہی نہیں ہے کہ اس میں ایک اسلامی ریاست کے جنین کا شائبہ تک موجود نہیں بلکہ اس کی دفعات خصوصاً وہ جو بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ براہ راست اسلامی ریاست کے اصولوں کی ضد ہیں۔‘‘ (ص۲۰۳)
اس عبارت کے تین اجزاء ہیں اور تینوں محل نظر ہیں۔
اوّل! یہ کہ قرار داد مقاصد محض ایک فریب ہے اور اس کا فریب ہونا عموماً تسلیم کیاجاتا ہے۔ حالانکہ اسے خواہ پہلے کسی نے بطور فریب استعمال کرنے کا بھی ارادہ کیا ہو تو بھی باشندگان ملک نے اسے اپنے دلوں کی آواز سمجھ کے اپنا لیا اور رپورٹ کی ترتیب کے وقت تک تو اس کی بنیاد پر دستور ساز اسمبلی دستور کا ایک ایسا خاکہ بنا چکی تھی جسے دیکھتے ہوئے قرارداد مقاصدکو کسی طرح بھی فریب نہیں گردانا جاسکتا تھا۔
دوم! یہ کہ اس قرارداد میں اسلامی ریاست کے جنین کا شائبہ تک موجود نہیں ہے۔ حالانکہ شائبہ کیا معنی خود جنبین موجود تھا اور وہ جب پرورش پاکر ولادت کے قریب آلگا تو اس کو ایک خطرہ سمجھنے والوں کو اس سے بچنے کے لئے اس کی والدہ کو ولادت سے قبل قتل کر دینے کے سوا اور کوئی راہ نجات نہیں مل سکی۔
سوم! یہ کہ اس کی دفعات خصوصاً وہ جو بنیادی حقوق سے متعلق ہیں۔ اسلامی ریاست کے اصولوں سے متصادم ہیں۔ حالانکہ اگر ایسا ہو بھی تو یہ سوال کہ پاکستان میں اسلامی ریاست کا نظریہ وہ اصل ہے۔ جس پر باقی ساری چیزوں کو ڈھلنا چاہئے یا دوسری چیزیں وہ اصل ہیں۔ جن پر اسلامی ریاست کے نظریے کو قربان ہونا چاہئے۔ آخر کار کسی عدالت کے نہیں، بلکہ باشندگان پاکستان کے طے کرنے کا ہے۔ اگر باشندوں کی اکثریت اسلامی ریاست کے نظریے کی واقعی معتقد ہوئی تو موجودہ دستور ساز اسمبلی اپنے بنائے ہوئے دستور میں خواہ کتنے ہی نقائص چھوڑ