دینی سیاسی نظام کی پیداوار ہیں۔ جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں۱؎۔ یہ بات بڑے زور سے کہی گئی ہے کہ پاکستان کا اس لئے مطالبہ کیاگیا تھا اور اسی لئے وہ وجود میں لایا گیا کہ اس نئی ریاست کا آئندہ سیاسی نظام قرآن اور سنت پر مبنی ہو اور یہ کہ اس مطالبے کا عملاً پورا ہو جانا اور اس کی اس بنیاد کا صریح طور پر قرار داد مقاصد میں تسلیم کر لیا جانا، علماء اور باشندگان پاکستان کے ذہن میں اس یقین کی پیدائش کا موجب ہوا ہے کہ کوئی مطالبہ جو مذہبی بنیادوں پر ثابت کر دیا جائے۔ نہ صرف یہ کہ مان لیا جائے گا۔ بلکہ ان لوگوں کی طرف سے اس کا پرجوش خیرمقدم کیا جائے گا۔ جو ریاست کے سربراہ کار ہیں اور جو پچھلے کئی برسوں سے خود یہ پکارتے رہے ہیں کہ ہم پاکستان میں ایک اسلامی ریاست، اسلامی طرز کے سیاسی، اجتماعی اور اخلاقی ادارات کے ساتھ قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ (ص۱۸۶)
اس مرحلے پر قبل اس کے کہ ہم قرارداد مقاصد کے متعلق عدالت کی رائے نقل کر کے اس پر کوئی بحث کریں۔ یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ اوّل تو تمام علماء نے نہیں بلکہ ان میں سے صرف چند نے ہی ان مطالبات کو قرارداد مقاصد کی پیداوار قرار دیا تھا۔ (جب کہ ماسٹر تاج الدین انصاری اور سید مظفر علی شمی جیسے حضرات سے ہمارا حسن ظن یہ ہے کہ وہ کبھی بھی عالم دین ہونے کی ذمہ داریاں قبول کرنے پر تیار نہ ہوںگے) دوسرے خواجہ ناظم الدین صاحب نے عدالت میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ اگر قرارداد مقاصد پاس نہ بھی ہوتی تو اس طرح کے مطالبات ایک خالص دنیوی حکومت میں پیش کئے جاسکتے تھے اور ان دونوں سے زیادہ اہم حقیقت یہ ہے کہ ان مطالبات کو قرارداد مقاصد کی پیداوار قرار دینے پر تاریخی امر واقعہ اٹھ کر خود تردید کر دیتا ہے۔ یہ بات کسی کو معلوم نہیں ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ تقسیم ہند سے بہت پہلے انگریزی حکومت کے زمانے میں کیاگیا تھا اور علامہ اقبال مرحوم نے اس کی پرزور وکالت کی تھی اور یہ بات کس سے چھپی ہوئی ہے کہ انگریزی حکومت کے زمانے میں جب چوہدری ظفر اﷲ خاں ایگزیکٹو کونسل کے ممبر بنائے گئے تھے۔ اس وقت مسلمانوں کی طرف سے اس پر احتجاج ہوا تھا اور صاف صاف کہا گیا تھا کہ کونسل میں ان کی شرکت سے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں ہوتی اور کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ چوہدری صاحب کی قادیانی نواز اور جانب دارانہ روش کے خلاف شکایات کا سلسلۂ انگریزی دور حکومت میں اکثر جاری رہا؟ اب رہ جاتا ہے کلیدی اسامیوں کا معاملہ۔ بلاشبہ اس سوال کو اس
۱؎ ’’جو اسلام ہے‘‘ نہیں بلکہ ’’جسے یہ لوگ اسلام کہتے ہیں‘‘ اس طرز بیان کو رپورٹ میں متعدد مقامات پر دہرایا گیا ہے۔ جس سے صاف طور پر یہ مترشح ہوتا ہے کہ عدالت کے نزدیک یہ ’’اسلام‘‘ علماء کا اپنا تصنیف کردہ ہے۔ بجائے خود یہ اسلام نہیں ہے۔