ہوئی ہے کہ مسٹر ایڈن، ایک طلاق زدہ آدمی، برطانیہ کے وزیراعظم ہوسکتے ہیں یا نہیں؟ جس کا دوسرا رکن امریکہ ہے۔ جس کے حدود میں ریڈانڈین اور نیگرو آبادی کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں؟ جس کا تیسرا رکن جنوبی افریقہ ہے۔ جہاں کالے اور گورے کی تفریق کا حال سب کو معلوم ہے؟ جس کا چوتھا رکن روس ہے۔ جس کے جبری محنت کے کیمپوں کی خبریں آئے دن دنیا میں پھیلتی رہتی ہیں؟ جس کا پانچواں رکن ہندوستان ہے۔ جس کی مسلم آبادی روز بھاگ بھاگ کر کھوکھرا پار سے پاکستان چلی آرہی ہے؟ اگر یہ اسی کا ذکر ہے تو بڑی اچھی ہے۔ یہ بین الاقوامی برادری جو اپنی چھلنی میں سینکڑوں چھید لے کر ہمارے سامنے منہ کھولے گی۔
چوتھی یا پانچویں دلیل کا جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کی روش کے متعلق پبلک میں عام شکایات ہوں اور جن کی زیادتیوں کے خلاف سارا ملک چیخ اٹھے۔ ان کے متعلق نہ دستور مملکت میں اور نہ بنیادی حقوق کی ابتدائی رپورٹ میں کہیں یہ لکھا ہے کہ ان کو ہرگز نہیں ہٹایا جاسکتا۔ درحقیقت وہ حکومت ایک بڑی ہی نادان حکومت ہوگی۔ جو باشندگان ملک کی عام شکایات کے مقابلے میں اس طرح کے اصطلاحی بہانوں کا سہارا لے۔ چھٹی دلیل کا جواب بڑی حد تک تیسری دلیل کے جواب میں آگیا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ایک اس طرح کا بین الاقوامی میثاق تیار کیاگیا ہے۔ جس پر پاکستان نے بھی دستخط کئے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ دنیاکا کوئی ملک ان خوشنما نظریات پر عمل نہیںکر رہا ہے اور اپنے نظام زندگی میں ان کو بس اسی حد تک جگہ دیتا ہے۔ جہاں تک اس کے حالات، ضروریات اور روایات اس کی اجازت دیتے ہیں۔ پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان کے سوا دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جہاں باشندگان ملک اور ان کے احساسات وجذبات اور ان کے حقیقی مسائل زندگی کو نظرانداز کر کے محض بین الاقوامی رائے کو اہمیت دی جاتی ہو۱؎۔
۱؎ ص۲۸۲ پر عدالت خود تسلیم کرتی ہے کہ: ’’اگر یہ مطالبات تسلیم کر لئے جاتے تو کوئی گڑبڑ بھی نہ ہوتی۔ کسی قسم کے ہنگامے نہ ہوتے۔ خواجہ ناظم الدین پاکستان کے ہردلعزیز ہیرو بن جاتے۔ احمدیوں کا چھوٹا سا فرقہ کوئی مزاحمت نہ کر سکتا۔ نہ کوئی ہنگامہ کھڑا کر سکتا۔ چوہدری ظفر اﷲ خاں کی علیحدگی پر بین الاقوامی حلقوں میں کچھ ہلچل برپا ہوتی۔ مگر خود پاکستان کی آبادی اس فعل کا پرجوش خیرمقدم کرتی۔‘‘ سوال یہ ہے کہ جب ملک میں اس کے یہ اثرات ہوتے تو پھر مطالبات کو رد کر کے یہ ہنگامے کیوں کھڑے کرائے گئے؟ رپورٹ کی بحثوں سے ناظر کے سامنے ایک ہی جواب آتا ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا تو پاکستان بین الاقوامی برادری سے نکال باہر کیا جاتا۔