عدالت خود ان کی عمارت کو جوں کا توں بھی قائم رہنے دے تو رپورٹ کے عام قاری کی ایک تنقیدی نگاہ کی چوٹ بھی انہیں گرا سکتی ہے۔ لیکن دوسری طرف ہم جب اس نظریاتی بنیاد کو عامیانہ فکر سے ہٹ کر ذرا گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو فی الحقیقت یہ بھی بالکل بودی نہیں ہے۔ اگر معاملہ عدالتی رپورٹ کا نہ ہوتا اور اسی نظریاتی بنیاد کو عام میدان بحث میں کوئی چیلنج کرتا تو ہم اس چیلنج کو قبول کر لیتے اور مدعی سے کہتے کہ کاغذی اور زبانی دعوؤں سے قطع نظر کر کے ذرا براہ کرم دنیا کی کسی ایسی ریاست کا نام لیجئے۔ جس میں ریاست کی حقیقی فرمانروا قوم اور دوسری قومی (سیاسی نہیں بلکہ قومی) اقلیتوں کے حقوق فی الواقع، عملاً مساوی ہیں؟ کیا امریکہ میں ایسا ہے؟ کیا یورپ کے کسی ملک میں ہے؟ کیا ایشیاء کے کسی ملک میں ہے؟ کیا آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں ہے؟ کیا روس میں ہے؟ جواب میں ہمارے سامنے لکھے ہوئے دستور نہ لائیے۔ ہمیں الفاظ نہیں واقعات درکار ہیں۔ ہم بڑے شکر گذار ہوتے اگر رپورٹ کے فاضل مصنفین ہی نے کسی ایک ایسے ملک کی مثال پیش کر دی ہوتی جہاں حقیقی معنوں میں قومی اقلیتیں موجود ہوں اور پھر قومی اکثریتوں کے ساتھ ان کو عملاً مساوات حاصل ہو۔
دوسری دلیل منطقی طور پر غلط ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ اس کے اندر ایک تناقض دو فاضل ججوں کی نگاہ سے کسی طرح مخفی رہ گیا۔ اس دلیل کا صاف منشاء یہ ہے کہ کسی کے مسلمان ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا ریاست کے فرائض میں سے نہ ہونا چاہئے اور اس بناء پر قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دینے کا مطالبہ رد کردیا جانا چاہئے۔ اب دیکھئے! جب مسلمان یہ کہیں کہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ اس لئے انہیں ہم سے الگ کیا جائے اور ریاست ان کے اس مطالبہ کو رد کر دے تو کیا اس طرح ریاست یہ فیصلہ نہ کر دے گی کہ قادیانی مسلمان ہیں؟ پھر اس منطقی غلطی سے قطع نظر کرتے ہوئے ہم پوچھتے ہیں کہ جب تقسیم سے پہلے برطانیہ کی غیراسلامی، دنیوی ریاست نے سکھوں کے ہندو نہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا اور جب اچھوتوں کو ہندوؤں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت ریاست نے کون سا فریضہ انجام دیا تھا؟
تیسری دلیل کو پڑھتے وقت ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کس بین الاقوامی برادری کا ذکر ہے جو چوہدری صاحب مکرم ومحترم کی علیحدگی کا فیصلہ ہوتے ہی ہمارا حقہ پانی بند کر دیتی۔ کیا اسی برادری کا ذکر ہے جس کا ایک رکن انگلستان ہے۔ جس نے اپنے ایک بادشاہ کو اس لئے تخت سے اتار دیا کہ وہ طبقہ عوام کی ایک عورت سے شادی کرنا چاہتا تھا اور جس کے ہاں آج یہ بحث چھڑی