’’ظاہر ہے کہ یہ تضمنات ضرور خواجہ ناظم الدین کے ذہن کے سامنے ہوںگے اور انہوں نے ضرور خود اپنے مذہبی اعتقادات اور مطالبات کی قبولیت کے ان تضمنات میں ایک تصادم محسوس کیا ہوگا۔‘‘ (ص۲۳۴)
’’خواجۂ بزرگ‘‘ کے ذہن کی یہ کیفیت دیکھ کر خدا کا شکر ادا کرنا پڑتا ہے کہ انہیں مطالبات کی قبولیت میں چاند سے زمین کے ٹکرا جانے اور اوپر سے سورج کے آپڑنے کا خطرہ لاحق نہ ہوا۔
فی نفسہ یہ دلائل بھی اس قابل ہیں کہ رپورٹ کے قارئین ان کاجائزہ لیں اور اپنی رائے قائم کریں۔
پہلی دلیل پیش کرتے ہی مطالبات اپنے واقعاتی پس منظر سے منقطع ہوکر بالکل ایک نظریاتی بحث کے دائرے میں داخل ہوگئے ہیں اور پھر یہاں رپورٹ ان پر وہ چوٹ لگاتی ہے۔ جو ’’جدید‘‘ ذہن کو بڑی کاری محسوس ہوتی ہے۔ مطالبات کا واقعاتی پس منظر یہ ہے کہ قادیانی ایک سخت قسم کے گروہی تعصب میں مبتلا ہیں اور مسلمانوں کو ہر شعبۂ زندگی میں سالہا سال سے یہ تجربہ ہے کہ یہ لوگ بالعموم اپنی پوزیشن سے قادیانیت کی اشاعت اور قادیانیوں کی جاوبیجا حمایت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس کی شہادت پنجاب کے سابق گورنر سردار عبدالرب نشتر عدالت کے سامنے دے چکے ہیں۔ اس کا علانیہ اعتراف پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ مسٹر دولتانہ نے ایک بھرے جلسے میں کیا۔ (رپورٹ ص۹۷،۹۸) اس ا صریح اقرار خود مرکزی حکومت نے اپنے ۱۴؍اگست ۱۹۵۲ء کے سرکاری کمینک میں کیا۔ (رپورٹ ص۱۲۷،۱۲۸) حتیٰ کہ اس امر واقعی کو عدالت خود اپنی رپورٹ میں تسلیم کر چکی ہے۔ (رپورٹ ص۲۶۱) اب اگر مسلمان ان مسلسل تلخ تجربات کے بعد یہ مطالبات کرتے ہیں کہ ان لوگوں کو (تمام سرکاری مناصب سے نہیں بلکہ ) صرف ان کلیدی مناصب سے ہٹایا جائے۔ جن سے ناروا فائدہ اٹھانے کا ان کو بہت زیادہ موقع ملتا ہے تو ان کے مطالبے کو کسی حال میں بھی اس واقعاتی پس منظر سے الگ کر کے نہیں جانچا جاسکتا۔ یہ مطالبات جہاں اپنے واقعاتی پس منظر سے الگ ہو جاتے ہیں۔ وہاں رپورٹ یہ کہتی سنائی دیتی ہے کہ مطالبہ کرنے والے حقائق وواقعات کی بناء پر نہیں بلکہ صرف اس نظریاتی بنیاد پر کرتے ہیں کہ: ’’مسلمان کے حقوق غیر مسلم کے حقوق سے مختلف ہیں۔‘‘ مطالبات جب مجرد اس نظریاتی بنیاد پر رکھ کر دیکھے جائیں تو واقعی حالت سے کہیں زیادہ کمزور اور بے وزن ہوکر سامنے آتے ہیں۔ اتنے کمزور کہ اگر