مگر بالذات نہیں بلکہ بالعرض۔ پس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ جگہ خالی کر گئے اور گزر چکے ہیں۔ پیشتر اس کے کئی رسول اور یہ معنی زندوں اور مردوں دونوں پر آسکتے ہیں۔ کیونکہ جگہ خالی کرنے اور گزرنے کی کیفیت صرف موت ہی میں منحصر نہیں۔ بلکہ یہ لفظ خلوا مردوں کے حق میں انتقال بالموت کے معنوں میں معین ہوگا اور جگہ تبدیل کرنے کے معنوں میں جس طرح کہا جاتا ہے کہ اس شہر میں کئی ایسے حاکم ہوگزرے ہیں۔ پس جس طرح یہ جملہ خواہ وہ حاکم مرگیا ہو۔ خواہ وہاں سے تبدیل ہوکر دوسری جگہ چلا گیا ہو۔ ہر دو حال میں صحیح المعنی رہتا ہے۔ اسی طرح آیت ’’لقد خلت من قبلہ الرسل (آل عمران:۱۴۴)‘‘ میں حضرت مسیح علیہ السلام کے حق میں بدلالت آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ (النسائ:۱۵۸)‘‘ وغیرہ دوسرے معنی یعنی جگہ تبدیل کرنے میں معین ہوگا۔
مدیر پیغام صلح نے جو ترجمہ کیا ہے پہلے تمام رسول فوت ہوچکے ہیں۔ انہوں نے من قبلہ کو الرسل کی صفت میں بتایا ہے۔ یہ صریح غلطی ہے اور علم نحو سے ناآشنا ہونے یا دیدہ دانستہ لوگوں کو مغالطے میں ڈالنے کی صاف شہادت ہے۔ کیونکہ آیت میں ’’من قبلہ‘‘ لفظ ’’الرسل‘‘ کی صفت میں نہیں ہوسکتا۔ بلکہ محل ظرف میں واقع ہے اور متعلق ہے۔ فعل خلت کے کیونکہ ظرف کے لئے ضروری ہے کہ کسی فعل کے متعلق ہو۔ پس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ: ’’اس سے پیشتر کئی رسول گذر چکے ہیں۔‘‘
’’یا من قبلہ‘‘ کو ’’الرسل‘‘ سے حال کہہ سکتے ہیں۔ مگر یہ بھی باطل ہے۔ اس لئے کہ حال اپنے ذوالحال پر ذکر میں اس وقت مقدم ہوگا۔ جب کہ ذو الحال نکرہ ہو اور اس آیت میں الرسل معرفہ ہے۔ پس من قبلہ کو خلت کے متعلق کرنا ضروری ہوا۔
دوسرے مدیر پیغام صلح کے ترجمے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ الرسل کے الف لام کو استغراق قرار دیتے ہیں اور اس بناء پر استدلال کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ سے پیشتر کے سب رسول فوت ہوچکے ہیں۔ یہ فاش غلطی ہے۔
اوّل… اس وجہ سے کہ پہلے ثابت ہوچکا ہے۔ ’’من قبلہ‘‘ فعل خلت کے متعلق ہے اور الرسل کی صفت نہیں ہے۔ پس یہی ترکیب اس الف لام کے استغراق نہ ہونے کے لئے کافی حجت ہے۔ کیونکہ اگر من قبلہ کو خلت کے متعلق ظرف ٹھہرائیں جو بالکل درست ہے اور الرسل کے الف لام استغراقی مانیں جو بالکل غلط ہے تو معاذ اﷲ ثم معاذ اﷲ اندریں صورت پہلے قضیہ ’’ما