۱۸۶۸ء میں جمیکا کی بغاوت کو کچلنے کے لئے جو مارشل لاء لگایا گیا تھا۔ اس پر انگلستان کے دوممتاز ماہرین قانون نے ایک نہایت مفصل قانون بحث کی تھی۔ اس بحث میں وہ لکھتے ہیں: ’’بغاوتوں کو فوجی طاقت سے دبانا بلاشبہ قانونی فعل ہے۔ مگر غیرقانونی عدالتوں کے ذریعہ سے بعد میں جرائم کے مرتکبین کو سزا دینا ایک ایسی کارروائی ہے جو دستاویز حقوق (Rights Charter) کے ذریعہ سے ممنوع ہے۔‘‘
’’جونہی کہ تصادم عملاً ختم ہوچکا تھا۔ فوجی حکام کا یہ فرض تھا کہ قیدیوں کو دیوانی اقتدار کے حوالے کر دیتے۔‘‘
’’وہ (یعنی فوجی آدمی) مزاحمت کے دب جانے کے بعد، جب کہ عام عدالتہائے انصاف کھل سکتی ہوں۔ لوگوں کو سزا دینے میں حق بجانب نہیں ہیں۔‘‘
’’یہ بات کہ مسٹر گارڈن قانونی حراست میں تھے۔ خود ظاہر کرتی ہے کہ وہ کوئی مزید خرابی برپا کرنے کے قابل نہ رہے تھے۔ خواہ پہلے کیسے ہی قصور وار رہے ہوں… جو افسر خلیج موارنٹ پر کورٹ مارشل کی حیثیت سے بیٹھے تھے۔ ان کے قانونی اختیارات کے بارے میں ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ کورٹ مارشل کی حیثیت سے قطعاً کوئی اختیارات نہ رکھتے تھے۔ وہ مسٹر گارڈن کی سزائے موت کو صرف اس وقت اور اسی حد تک حق بجانب ثابت کر سکتے تھے۔ جب کہ وہ یہ دکھا سکتے کہ یہ قدم اٹھانا امن کو برقرار اور ازسر نو نظم قائم کرنے کے لئے فوری طور پر اور ناگزیر طور پر ضروری تھا۔ اگر مسٹر گارڈن نے فی الواقع غداری کی بھی تھی تو وہ اس کو سزا دینے کا کوئی حق نہ رکھتے تھے۔ ان کا دائرہ اختیار صرف طاقت کو طاقت کے ذریعہ سے دبا دینے تک محدود تھا۔ نہ یہ کہ وہ جرائم کی سزا بھی دینے لگیں۔‘‘ (یہ پوری بحث خورسائتھ نے اپنی محولہ بالا کتاب میں ص۵۵۱ سے ۵۶۲ تک نقل کی ہے)
یہ سب ماہرین قانون اس بات پر متفق ہیں کہ بغاوت یا فساد کو طاقت سے کچلنے کے لئے تو مارشل لاء لگانا جائز ہے۔ مگر جہاں عام ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہوں یا کھل سکتی ہوں۔ وہاں مکمل مارشل لاء نافذ کر دینا اور فوجی عدالتیں قائم کر کے لوگوں کو سزائیں دینا بالکل ناجائز ہے۔ اس قانونی پوزیشن کو سامنے رکھ کر تحقیقاتی عدالت کو یہ بتانا چاہئے تھا کہ ۶؍مارچ کی دوپہر تک وہ کون سے حالات پیدا ہوچکے تھے جن کی بناء پر ایسا مکمل مارشل لاء نافذ کر دینا حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہو۔ جیسا کہ لاہور میں نافذ کیاگیا۔ کیا واقعی لاہور میں عدالتیں بند ہو چکی تھیں اور اس قدر