(ص۲۷۴) پر پھر یہ فقرہ ہمارے سامنے آتا ہے: ’’اس تمام مدت میں مسلم لیگ یا اس کے کسی لیڈر کی طرف سے اس تحریک کی مزاحمت یا عوام کے سامنے کوئی جواب آیڈیالوجی پیش کرنے کے لئے کچھ نہ کیاگیا۔‘‘
(ص۲۸۳) پر عدالت پھر کہتی ہے: ’’اس طرح کی صورت حالات میں جب کہ پوری آبادی مذہبی جوش میں بھری ہوئی ہو۔ قانونی اور انتظامی مشین کو حرکت میں لانے سے بڑھ کر کچھ اور کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور وہ ’’کچھ اور‘‘ نہ پنجاب میں موجود تھا اور نہ کراچی میں اس کی فکر کی گئی۔‘‘
عدالت ’’کچھ اور‘‘ نہ کرنے پر محض واقعات صورت حالات کا جائزہ لے کر ہی نہیں رہ گئی۔ بلکہ اس ’’کچھ اور‘‘ کی واضح نشاندہی بھی رپورٹ میں ملتی ہے۔ بحث اسی حد تک محدود نہیں رہی کہ کیا ہوا تھا اور کیا ہونے سے رہ گیا۔ بلکہ مواد اس پر بھی ملتا ہے کہ کیا ہونا چاہئے تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے عدالت گذرے ہوئے واقعات کی چھان بین سے آگے بڑھ کر ارباب سیاست کو مستقل مشورے بھی دے رہی ہے۔ گمان ہوسکتا ہے کہ بحث کا ایسی حد تک جا پہنچنا ہی اس امر کا موجب ہوا ہوگا کہ عدالت نے مطالبات کے حسن وقبح پر اس رنگ میں بحث کی کہ غالباً خواجہ ناظم الدین نے مطالبات پر غور کرتے ہوئے یہ اور یہ اور یہ سوچا ہوگا۔ حالانکہ زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ جب خواجہ صاحب خود عدالت میں گواہ کی حیثیت سے تشریف لائے تھے۔ ان سے پوچھ لیا جاتا کہ آپ نے کیا کچھ سوچا تھا اور کیا نہ سوچا تھا۔ ذیل میں ہم اس دلچسپ بحث کا خلاصہ نقل کرتے ہیں۔ جو رپورٹ میں (ص۲۳۳ تا ۲۳۴) تک مسلسل کی گئی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ’’ان طویل اور باربار کے مباحثات کو دیکھتے ہوئے جو خواجہ ناظم الدین اور علماء کے درمیان ہوئے۔ یہ معلوم ہوتا ہے کہ دینیاتی بنیادوں پر ان مطالبات کا صحیح اور حق بجانب ہونا ضرور زیر بحث آیا ہوگا۔ خواجہ ناظم الدین ایک مخلص مذہبی آدمی ہیں اور چونکہ انہوں نے صاف صاف ان مطالبات کو رد نہیں کیا۔ اس لئے غالباً وہ ان کی ظاہر فریب خوش نمائی سے متأثر ہوئے ہوںگے۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے ضرور یہ محسوس کیا ہوگا کہ یہ مطالبات محض چھینی کے پتلے سرے کی حیثیت رکھتے ہیں اور اگر ایک مرتبہ یہ اصول تسلیم کر لیا گیا کہ اس طرح کے مذہبی معاملات پر بحث اور تصفیہ کرنا ریاست کا کام ہے تو آئندہ انہیں زیادہ نازک اور نرالے مطالبات سے سابقہ پیش آئے گا۔ انہوں نے یہ بھی ضرور سوچا ہوگا کہ ان مطالبات کو قبول کرنے کے کیا اثرات نہ صرف عالم اسلام پر بلکہ بین الاقوامی دنیا پر مرتب ہوںگے۔‘‘