۴؍مارچ کی سہ پہر کو یکا یک جلسۂ عام میں ایک شخص نمودار ہوتا ہے اور پبلک کو یہ واقعہ سناتا ہے کہ چوک دالگراں میں پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور اس سے زخمی ہوکر ایک رضاکار سڑک پر گرگیا۔ جس کے گلے میں قرآن مجید لٹکا ہوا تھا اور پولیس کے افسر نے آگے بڑھ کر قرآن کو ٹھوکر ماری۔ یہ واقعہ سنا کر وہ قرآن کے منتشر اوراق مجمع کے سامنے پیش کرتا ہے۱؎۔ یہ چیز شہر میں اشتعال پھیلا دیتی ہے اور اس کے تھوڑی ہی دیر بعد مسجد وزیرخاں پر وہ پولیس افسر مارڈالا جاتا ہے۔ جس کے متعلق یہ مشہور ہوا تھا کہ توہین قرآن کا مرتکب وہی ہے۔ اس کے بعد حالات کا رنگ یک لخت بدل جاتا ہے۔ ایک طرف جگہ جگہ فائرنگ ہوتا ہے۔ دوسری طرف پبلک کھلم کھلا تشدد پر اتر آتی ہے اور تیسری طرف آبادی کے وہ طبقے بھی کشمکش میں شامل ہو جاتے ہیں جو اب تک بالکل الگ تھلگ تھے۔ یعنی طلبہ اور سرکاری ملازمین یہ ایک ایسا معنی خیز فرق ہے جس کو آسانی کے ساتھ نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ اس کی وجہ کا مشخص کرنا اس لئے ضروری تھا کہ ذمہ داری کی تشخیص سے اس کا گہرا تعلق تھا اور ذمہ داری کی تشخیص ان تین معاملات سے ایک تھی جن کی تحقیق ازروئے قانون عدالت کے سپرد کی گئی تھی۔ مگر عدالت یہ کہتی ہے کہ: ’’ہمارے سپرد جن شرائط کے تحت اس تحقیقات کا کام کیاگیا ہے۔ ان کی رو سے ہمیں صرف اس امر کی رپورٹ دینی ہے کہ آیا تدابیر کافی تھیں یا نہیں۔ فائرنگ کی شدت وکثرت ان شرائط کے دائرے میں نہیں آتی۔ الایہ کہ ایسی فائرنگ ہنگاموں کی یا ان کے تیز تر ہو جانے کی موجب بنی ہو۔‘‘ (ص۱۶۱)
ہم اس کے متعلق صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفاء کریں گے کہ بکثرت لوگوں کی طرف سے اور خود تحقیقات میں حصہ لینے والی پارٹیوں کی طرف سے، باربار اور حتمی طور پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ فائرنگ کی شدت وکثرت ہنگاموں کی اور ان کے تیز تر ہو جانے کی موجب بنی، لہٰذا ہم یہ رائے رکھتے ہیں کہ عدالت کے لئے یہ فیصلہ دینا ضروری تھا کہ یہ الزام درست ہے یا نہیں۔
۱؎ یہ معلوم کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ جس شخص نے مجمع عام میں یہ قصہ سنا کر قرآن مجید کے اوراق پیش کئے تھے۔ وہی بعد میں مولانا عبدالستار نیازی اور سید خلیل احمد صاحب کے مقدموں میں پولیس کے گواہ کی حیثیت سے فوجی عدالت کے سامنے آیا اور اس وقت پتہ چلا کہ یہ خود پولیس کا آدمی تھا۔ جماعت اسلامی کے وکیل چوہدری نذیر احمد صاحب نے اس قصے کی پوری تفصیل تحقیقاتی عدالت میں بیان کر دی تھی۔