رکھنے کی کوشش کرے؟ اس پردہ داری میں آخر کیا فائدہ ہے اور کس کا فائدہ ہے؟ اخبارات سے اگر صحیح خبریں نہ ملیں گی تو غلط افواہیں پھیلیں گی۔ جو پبلک کے لئے بہرحال گمراہ کن ہوںگی اور اخبارات اگر ملک کے اصل حالات سامنے نہ لائیں گے تو حکومت کے لئے باخبر رہنے کا صرف ایک ہی ذریعہ باقی رہ جائے گا۔ یعنی سی آئی ڈی کی رپورٹیں، جو ہمیشہ تصویر کا ایک ہی رخ پیش کرتی رہیں گی اور حکومت کو بھی گمراہ کر کے چھوڑیں گی۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس صورت میں ایک طرف پبلک کا اور دوسری طرف حکومت کا غلط فہمیوں میں مبتلا ہونا اور کسی کا بھی حالات کی اصل تصویر سے واقف نہ ہونا آخر کس نقطۂ نظر سے مفید ہے؟
اس کے جواب میں اگر یہ عذر سامنے آئے کہ اس پالیسی کی سفارش ’’ناپسندیدہ‘‘ تحریکوں کا مقابلہ کرنے کے لئے کی جاتی ہے تو یہ کوئی معقول اور وزنی عذر نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کس کے لئے ناپسندیدہ؟ اگر کوئی تحریک پبلک کے لئے ناپسندیدہ ہے تو وہ آپ ہی مر جائے گی۔ کسی کو اس کے لئے فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر وہ پبلک کے لئے پسندیدہ اور چند حکام عالی مقام کے لئے ناپسندیدہ ہے تو حکومت کو کیا حق ہے کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پریس کی رائے خریدنے میں پبلک کا روپیہ استعمال کرے اور اس کی خبریں چھپانے کے لئے اخبارات کے منہ بند کرتی پھرے؟ یہ حرکت نہ صرف ناجائز ہے۔ بلکہ غیرمفید بھی ہے۔ عوامی تحریکوں کا مقابلہ صرف ایک ہی طریقہ سے کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جوان کا مخالف ہو وہ خود میدان میں آئے اور عوام کی پسند کو معقول اور جائز طریقوں سے بدلنے کی کوشش کرے۔ اس میدان میں جو شکست کھا جائے گا وہ ان تدبیروں سے کوئی پائیدار کامیابی حاصل نہ کر سکے گا۔ جو بالعموم ملازمت پیشہ ذہن سوچا کرتے ہیں۔
اصل میں جب بھی زندگی کے وسیع اور متنوع مسائل کو اس کے کسی محدود تقاضے کے ایک ہی گز سے ناپا جائے گا تو ہمیشہ رائے قائم کرنے اور فیصلہ دینے میں الجھنیں پیدا ہوںگی۔ یہاں بھی سیاسی واجتماعی زندگی کے وسیع تقاضوں کو صرف ایک ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کے گز سے ناپ ڈالا گیا ہے۔ یہ وہی یک رخے ذہن (Single Track Mind) کی کمزوری ہے جس کا طعنہ رپورٹ میں علماء کو دیاگیا ہے۔ (ص۲۹۸)
تین اہم معاملات جن کو صاف نہیں کیاگیا
ان ضمنی مباحث کے بعد ہم اپنے تجزیہ وتبصرہ کے دوسرے حصے کی طرف بڑھنے سے