حضرت ابوہریرہؓ کا اس آیت کو حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں حدیث کی تصدیق کے لئے پڑھنا مدیر ’’پیغام صلح‘‘ کی خیالی اجماع کے توڑنے کے لئے تو کافی ہے۔ نیز اس آیت میں لفظ خلوا آیا ہے۔ خلو کے معنی مرنا اور معدوم ہونا نہیں۔ کیونکہ پھر آیت ’’سنۃ اﷲ التی قد خلت من قبل‘‘ اور آیت ’’وان تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا‘‘ میں تناقض واقع ہوگا۔ کیونکہ پہلی آیت کا مفہوم بموجب مذہب مدیر پیغام صلح یہ ہے کہ سنت اﷲ کی آیت معدوم ہوچکی ہے اور دوسری آیت کا یہ کہ سنت الٰہی تبدیل بھی نہیں ہوسکتی۔ یعنی اسے ہمیشہ اپنے حال پر بقاء حاصل ہے۔
پس خلت سے موت اور عدم مراد سمجھنا بالکل باطل ہے۔
اور سنئے! خلت، مشتق ہے خلو سے اور موضوع مکان کی صفت کے لئے اور مراد اس سے جگہ کا خالی کرنا ہے۔ چنانچہ لسان العرب میں ہے: ’’خلا خلا المکان والشیٔ یخلو خلواً وخلائً ا واخلا اذالم یکن فیہ احد ولا شیٔ فیہ وھو خال‘‘
اسی طرح قاموس اور صراح میں بھی ہے اور قرآن شریف میں بھی نقل مکان کے لئے آیا ہے۔ جیسے: ’’واذا خلوا الیٰ شیطینہم (البقرہ:۱۴)‘‘ {جس وقت یہ منافق اپنے بڑے شیطانوں (یعنی رئیسوں) کے پاس جاتے ہیں۔}
اور اسی طرح اس آیت سے پیشتر: ’’واذا خلوا عضوا علیکم الانا مل من الغیظ (آل عمران:۱۱۹)‘‘ {منافق لوگ جس وقت تم سے الگ ہوتے ہیں تو تم پر غیض وغضب کے مارے اپنے پپوٹے کاٹتے ہیں۔}
اور اسی طرح یہ آیت ہے: ’’فخلوا سبیلہم (التوبہ:۵)‘‘ یعنی مشرک لوگ ایمان لے آئیںاور احکام الٰہی کے پابند ہو جائیں تو ان کا راستہ خالی کر دو۔ یعنی ان سے تعرض نہ کرو۔
ان سب آیات میں ایک جگہ سے ہٹ کر دوسری جگہ جانا مراد ہے۔ جسے انتقال مکانی کہتے ہیں۔ دوسرے خلو کے جو زمانے کے متعلق ہوتے ہیں۔ گزرنا ہے۔ جیسے آیت: ’’بما اسلفتم فی ایام الخالیۃ (الحاقہ:۲۴)‘‘ {جو کچھ تم نے ایام گذشتہ میں کیا۔ اس کے عوض جنت کی ان نعمتوں میں رہو۔}
اور ہر ذی علم سمجھ سکتاہے کہ گزرنا زمانے کی صفت بالذات ہوا کرتی ہے اور جن چیزوں پر زمانہ گزرتا ہے۔ یہ معنی یعنی گزرنا بعلاقہ ظرفیت ومظروفیت ان چیزوں کی صفت بھی ہوسکتا ہے۔