دولت کی طرح تھی جو کسی کو چھپر پھاڑ کر ملی ہو اور موخر الذکر پرچے کی قلیل اشاعت کو دیکھتے ہوئے وہ امداد اچھی خاصی وزنی معلوم ہوتی ہے جو اسے دی جارہی تھی۔‘‘
’’احمدیوں کو ایک الگ گروہ ثابت کرنے کے لئے طویل اور استدلالی مضامین، ایجی ٹیشن کے متعلق واقعات وحوادث کی ہیجان انگیز خبریں، ملاقاتوں کے نتائج، جلسوں میں ہونے والی تقریریں اور مساجد وغیرہ میں پاس کی ہوئی قراردادیں، ان چیزوں کی اشاعت، ایجی ٹیشن کو پھیلانے اور تیز کرنے کے سوا اور کوئی نتیجہ پیدا نہ کر سکتی تھی اور یہ نتیجہ نہ صرف یہ کہ ان اخبارات کو معلوم تھا۔ بلکہ ان کی نیت بھی یہ تھی کہ یہ رونما ہو۔‘‘ ان عبارات کو پڑھ کر اگر عام لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو۔ بشرطیکہ اسے غلط فہمی ہی کہا جاسکے کہ عدالت یہ کہنا چاہتی ہے کہ وہ سراسر ناجائز رشوت جو سرکاری خزانے سے ان اخبارات کو دی گئی تھی۔ ان کی پالیسی خریدنے، یا کم ازکم ان کی پالیسی پر اثر انداز ہونے میں استعمال ہونی چاہئے تھی اور غلطی کی گئی جو ضمیر کی خریدوفروخت کا یہ کاروبار نہ کیاگیا تو نہیں کہا جاسکتا کہ عدالت اس کا کس حد تک ازالہ کر سکے گی۔ دوسرا سوال جو ان عبارات کے پڑھنے سے پیدا ہوئے بغیر نہیں رہتا یہ ہے کہ آیا خود عدالت کے نزدیک خبروں کا بلیک آؤٹ کرنا اور ملک میں پیش آنے والے واقعی حالات پر قصداً پردہ ڈالنا ایک صحیح طریق کار ہے؟
کیا یہ دونوں باتیں واقعی درست ہیں؟ کیا پبلک کے خزانے کا یہ مصرف صحیح ہے کہ حکومت اس سے ملک کے اخبارات کی پالیسی خریدے یا اس پر اثر انداز ہو؟ کیا یہ صریح رشوت نہیں؟ کیا اس کو ایک معاملہ میں جائز ٹھہرا دینے کے بعد کوئی حد ایسی قائم کی جاسکتی ہے۔ جس پر اسے روکا جاسکتا ہو اور اس کا دائرہ تمام قومی معاملات تک وسیع نہ ہو سکے؟ پھر کیا اس ملک میں جمہوریت زندہ رہ سکتی ہے اور ڈکٹیٹر شپ مسلط ہونے سے رک سکتی ہے۔ جہاں برسر اقتدار جماعت کو پبلک کے سرمائے سے اس طاقت پر اثر ڈالنے کا حق حاصل ہو جائے جو پبلک کی رائے کو تیار کرنے والی سب سے بڑی طاقت ہے؟ دوسری طرف کیا یہ واقعی جائز ہے اور معقول اور مفید ہے کہ جو تحریکیں ملک میں عملاً چل رہی ہوں۔ ان کا مقابلہ بلیک آؤٹ کی پالیسی سے کیا جائے؟ کیا یہ وہی شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے والی غلطی نہیں ہے۔ جس کا طعنہ خود عدالت نے خواجہ ناظم الدین کو دیا ہے؟ کیا وہ اخبار نویس صحافتی بددیانتی اور ملک کے ساتھ غداری کا مرتکب نہ ہوگا۔ جو قصداً ملک کے صحیح حالات پر پردہ ڈالے اور باشندگان ملک کو ان سے بے خبر