سے ایک پارٹی انتخاب جیتتی ہے۔ وہ دراصل حکومت کے لئے رائے دہندوں کا فرمان تفویض (Mandate) ہے۔ اگر جمہوریت کے معنی یہ ہیں کہ ملک کسی شخص کا یا گروہ کا نہیں بلکہ باشندوں کا ہے تو جس منشور کو قبول کر کے باشندوں کی اکثریت اپنے ملک کی حکومت ایک پارٹی کے سپرد کرتی ہے۔ وہ فرمان نہیں تو اور کیا ہوا؟ اس فرمان کی تعمیل کرنا گناہ اور تعمیل نہ کرنا فرض ہو تو پھر ہمیں چاہئے کہ جمہوریت کو لپیٹ کر رکھ دیں اور سیدھی طرح شاہی یا ڈکٹریٹر شپ کو اپنالیں۔
جمہوریت کی تیسری اہم قدر پریس کی آزادی ہے۔ جس کے بغیر کوئی جمہوری نظام نہیں چل سکتا۔ یہاں ہم پریس کی آزادی کے پورے موضوع سے اس کی تمام وسعتوں کے ساتھ بحث نہیں کر رہے ہیں۔ بلکہ اس کے صرف اس حصے سے ہم کو بحث ہے۔ جس پر اس رپورٹ کے بعض ارشادات سے زد پڑتی ہے۔ نیز اس بحث کی ابتداء ہی میں ہم یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم پریس کی اس بے قید آزادی کے حامی نہیں ہیں جو فتنہ خیز اور فساد انگیز ہو اور جس میں ملک کے کسی بڑے یا چھوٹے شخص یا گروہ پر گالیوں کی بوچھاڑ اور اس کے خلاف اشتعال انگیزی کی جائے۔ بعض اخبارات کی اس روش پر عدالت نے جو گرفت کی ہے۔ ہم کو اس سے پورا اتفاق ہے۔ البتہ ہمیں جس چیز سے اتفاق نہیں ہے وہ یہ ہے کہ یہ روپیہ دے کر اخبارات کے ضمیر خریدے جائیں۔ لالچ سے ان کی پالیسی کو متأثر کیا جائے اور ان سے یہ چاہا جائے کہ وہ ملک میں پیش آنے والے ان واقعات کی خبروں کو بلیک آؤٹ کریں۔ جنہیں پیش آنے سے توباز نہ رکھا جاسکتا ہو۔ مگر جن کی خبروں کی اشاعت اس بہانے سے روکی جائے کہ اس طرح کسی ’’ناپسندیدہ‘‘ تحریک کے پھیلاؤ کو روکنا مقصود ہے۔ ہمیں افسوس ہے رپورٹ پڑھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ عدالت نے اس پالیسی کی گویا پرزور وکالت کی ہے۔ (ص۲۸۰،۲۸۱) پر پریس کی ذمہ داری سے بحث کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ’’زمیندار کے متعلق یہ بیان کیاگیا ہے کہ اس کی تو مقبولیت اور اشاعت ہی احمدیوں کا مذاق اڑانے اور انہیں گالیاں دینے کی بدولت تھی۔ مگر ہم یہ باور نہیں کرتے کہ اگر محکمہ تعلقات عامہ کا ڈائریکٹر اس معقول (مالی) امداد کی بناء پر جو حکومت اس پرچے کو دے رہی تھی۔ اس کی سرگرمیوں کو قابو میں لانا چاہتا تب بھی یہ پرچہ اپنے طرز عمل پر اصرار کیے چلا جاتا۔ خصوصیت کے ساتھ ان تعلقات کو دیکھتے ہوئے جو مولانا اختر علی خان اور خود مسٹر دولتانہ کے درمیان تھے۔ یہ باور کرنا اور بھی مشکل ہے۔ ’’احسان‘‘ اور ’’مغربی پاکستان‘‘ یقینا محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر کو ناراض نہیں کر سکتے تھے۔ مقدم الذکر پرچے کے لئے تو سرکاری امداد گویا اس