نمائندہ گورنر جنرل یا وائسرائے کی طرح کا کوئی عہدہ دار۔ گویا اس رپورٹ کی روشنی اگر قبول کر لی جائے تو تقسیم ہند سے پہلے بلکہ ۱۹۵۳ء کی اصلاحات سے بھی پہلے کی پوزیشن پر واپس چلے جانا چاہئے۔ جب کہ مانٹیگو چمپسفورڈ ریفارم اسکیم کے مطابق یہاں دو عملی نافذ تھی۔ تعلیم اور لوکل سیلف گورنمنٹ جیسے محکموں کو وزیر چلاتے تھے اور لا اینڈ آرڈر کی مسند اقتدار پر اگزکٹو کونسل کا وہ دیوتا بیٹھا تھا۔ جسے انتخابات میں رائے دہندوں کے سامنے جانے کا خواب کبھی نہ ڈراتا تھا۔ یہ ہے لا اینڈ آرڈر کا وہ تصور جو ہماری اس تاریخی عدالتی رپورٹ سے اخذ ہوتا ہے۔
جمہوریت کی دوسری اہم قدر قانون کی فرمانروائی (Rule of Law) ہے۔ جس کے بنیادی تصورات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی شخص کی جان ومال اور آزادی پر انتظامی حکومت من مانے طریقے سے ہاتھ نہ ڈال سکے۔ بلکہ وہ ازروئے ضابطہ اس امر پر مجبور ہوکہ جس کے خلاف بھی وہ کاروائی کرنا چاہے۔ اسے باقاعدہ الزام لگا کر کھلی عدالت میں پیش کرے اور عدالت میں اس کا جرم ثابت کرے۔ سیفٹی ایکٹ اور سیکورٹی ایکٹ جیسے قوانین اس لحاظ سے قطعاً لاقانونی کے قوانین ہیں۔ ایک مدت سے سارا ملک چیخ رہا ہے کہ ان کو ختم کیا جائے اور لوگوں کے مستلزم سزا ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ عدالتوں کے سپرد کیا جائے۔ جو معروف قانونی ضابطہ کے مطابق استغاثے اور صفائی کو مساوی مواقع دینے کے بعد حکم سنائیں۔ مگر یہ دیکھ کر ہماری مایوسی کی کوئی حد نہیں رہتی کہ یہ اونچے درجے کی عدالتی رپورٹ اپنا وزن سیفٹی ایکٹ کے آزادانہ استعمال کی پرزور حمایت میں انتظامیہ کے پلڑے میں ڈالتی ہے۔ جو پہلے ہی کافی بھاری ہے۔ یہ پوری شدت کے ساتھ دولتانہ وزارت کو اس بات پر مطعون کرتی ہے کہ اس نے ان قوانین کے استعمال میں کیوں تأمل کیا۔ یہ مضمون اگرچہ رپورٹ میں متعدد مقامات پر بیان ہوا ہے۔ مگر ص۲۷۷تا۲۷۸ تک عدالت نے اس پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے۔، یہاں عدالت یہ مانتی ہے کہ مسلم لیگ نے اپنے انتخابی منشور میں پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ سے اپنی بیزاری کا صاف صاف اظہار کیا تھا اور پبلک سے یہ وعدہ کر کے انتخاب جیتا تھا کہ یہ قانون منسوخ کر دیا جائے گا۔ پھر بھی وہ اصرار کرتی ہے کہ مسلم لیگی وزارت کا فرض تھا کہ اپنے منشور کے خلاف اور اپنے ان وعدوں کے خلاف جن کی بناء پر انتخابات میں اس کو کامیابی ہوئی تھی۔ سیفٹی ایکٹ کا استعمال کرتی اور اب عدم استعمال پر وہ ملامت کی مستحق ہے۔ یہ چیز نہ صرف فرمانروائی قانون (Rule of Law) کی جڑ کاٹ دیتی ہے۔ بلکہ ساتھ ساتھ جمہوریت کے اس بنیادی اصول کا بھی خاتمہ کر دیتی ہے کہ جس منشور کے ذریعہ