’’یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ مسلم لیگ اور اس کے لیڈر چاہتے تھے کہ عوام میں مقبول رہیں اور ایسی کوئی کارروائی نہ کریں جس کے آئندہ انتخابات پر اثرات لیگ کو وزارت سے بے دخل کر سکتے ہیں۔‘‘ (ص۲۹۷)
’’بے شک (۵؍مارچ کو گورنمنٹ ہاؤس میں) سہ پہر کے وقت ایک اجتماع ہوا تھا۔ جس میں سربرآوردہ شہریوں نے اس شدید فائرنگ کے خلاف احتجاج کیا تھا جو سید فردوس شاہ کے قتل کے بعد برپا ہونے والی لاقانونیت پر شروع ہوا۔ اس احتجاج سے چند وزرا بھی متأثر تھے۔ آخر توآئندہ انتخابات اس وقتی بحران کی بہ نسبت زیادہ ہی اہمیت رکھتے تھے۔‘‘ (ص۳۷۲)
اس ساری بحث کا مدعا رپورٹ کی آخری سطروں میں جاکر یوں کھولا گیا ہے۔ ’’نتیجتاً ہم کو ایک چیز جسے لوگ انسانی ضمیر کہتے ہیں۔ یہ سوال کرنے پر اکساتی ہے کہ کیا سیاسی ارتقاء کے اس مرحلے پر جس میں ہم ہیں۔ لا اینڈ آرڈر کا انتظامی مسئلہ اپنے اس جمہوری شریک بستر سے جدا نہیں کیاجاسکتا۔ جسے وزارتی حکومت کہتے ہیں۔ جس کو سیاست کے ڈراؤنے خواب اس قدر بے رحمی کے ساتھ پریشان رکھتے ہیں؟ لیکن اگر جمہوریت کے معنی لا اینڈ آرڈر کو سیاسی اغراض کے تحت رکھنے ہی کے ہیں تو انجام اﷲ ہی بہتر جانتا ہے اور ہم اس رپورٹ کو ختم کرتے ہیں۔‘‘ (ص۳۸۷)
یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس فقرے میں جو سوال پیش کیاگیا ہے۔ وہ سوالیہ تجویز ہے یا تمنا۔ مگر خواہ یہ تجویز ہو یا تمنا، دونوں صورتوں میں ہمارے لئے یہ فرض کرنا مشکل ہے کہ دو ایسے فاضل قانون دان، جیسے کہ اس رپورٹ کے مصنفین فی الواقع ہیں۔ نظام حکومت کی اس شکل سے واقف نہ ہوںگے۔ جس کے سوا کسی دوسری شکل میں ان کے اس سوال کا اثباتی جواب حاصل نہیں ہوسکتا۔ لااینڈ آرڈر کے انتظامی مسئلے کو وزارتی حکومت کے جمہوری شریک بستر سے جدا کرنے کی آخر اس کے سوا اور کیا صورت ہوسکتی ہے کہ وزارتی حکومت کے لئے ایک الگ بستر بچھایا جائے۔ جس پر وہ تعلیم اور لوکل سیلف گورنمنٹ جیسے مسائل پر لیٹی غور کرتی رہے اور لااینڈ آرڈر کا مسئلہ کسی ایسے عہدیدار کے حوالہ کیا جائے جو کسی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ جسے انتخابات میں عوام کا سامنا کرنے کا ڈراؤنا خواب کبھی رات کو یاد ن کو پریشان نہ کر سکے۔ اب لامحالہ اس عہدیدار کو یا تو خود مطلق العنان بادشاہ ہونا چاہئے۔ یا پھر وہ کسی ایسے بالاتر فرمانروا کو جواب دہ ہونا چاہئے۔ جو خود عوام کے سامنے جواب دہ نہ ہو۔ یعنی جمہوریت کا صدر نہیں بلکہ برٹش کراؤن کے