ہنگاموں کی سرے سے نوبت ہی نہ آتی جو پنجاب میں رونما ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کے ارشادات یہ ہیں۔
’’انتظامی شعبے کے افسروں نے جن مقدمات سے تعرض کیا ہے۔ ان کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وقتاً فوقتاً یہ تجویزیں پیش کی جاتی رہیں کہ کسی شخص کو (سیفٹی ایکٹ کی) دفعہ ۳ کے تحت پکڑا جائے۔ یا تقریریں کرنے سے روکا جائے۔ یا دفعہ ۵ کے تحت اس کی نقل وحرکت کو کسی خاص علاقے میں محدود کر دیا جائے۔ یا دفعہ ۲۱کے تحت حکومت کی معزز شخصیتوں کو گالیاں دینے یا ان کے فرضی جنازے نکالنے پر ان کے خلاف مقدمہ چلایا جائے۔ مگر سیاسی لیڈر کی نگاہ میں تو پبلک سیفٹی ایکٹ ایک نفرت انگیز قانون تھا۱؎۔ جب کبھی اس قانون کے تحت کارروائی کرنے کی کوئی سفارش کی گئی تو اس کو سیاسی عینک سے دیکھا گیا اور جو فیصلے کئے گئے ان میں ہمیشہ منتظم پر سیاسی آدمی چھایا رہا۔ ایک منتظم جولا اینڈ آرڈر کا انچارج ہو۔ اس کارروائی کو صرف قانون وانتظام کے پہلو سے دیکھتا ہے۔ جس کے کرنے کا اس سے مطالبہ کیا جائے۔ یا جس کو وہ خود کرنا چاہے۔ مگر سیاسی آدمی کے لئے اوّلین قابل لحاظ پہلو یہ ہوتا ہے کہ تجویز کردہ کارروائی کا خود اس کی اور اس کی پارٹی کی عوام میں مقبولیت پرکیا اثر پڑے گا۔‘‘
اب دیکھئے، سیاسی آدمی کا یہ اصول کہ جب وہ ایک منتظم کی حیثیت میں کام کر رہا ہو اس وقت بھی وہ ایک ایسی کارروائی کو جو قانون کے تحت کی جاسکتی ہو یا جسے ایک معاملے کی ضرریات چاہتی ہیں کہ ازروئے قانون کی جائے صرف اس لئے عمل میں نہ لائے کہ اس سے عوام میں بے اطمینانی پیدا ہوگی۔ خطرناک طور پر اس تجویز کے قریب جاپہنچتا ہے کہ اگر ایک قاتل کو پبلک سراہ رہی ہو اور اس پر مقدمہ چلانا پبلک میں ناراضی پیدا کرنے یا ملزم کے لئے ہمدردی کا عام جذبہ ابھاردینے کا موجب ہو تو قاتل کو سزا دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (ص۲۷۸)
۱؎ اس میٹھے سے طنز کے پیرائے ہیں۔ شاید عدلیہ کی عالمگیر تاریخ میں پہلی مرتبہ اونچے درجے کے ججوں کے قلم نے سیفٹی ایکٹ جیسے قانون کی ساکھ بنا دی ہے۔ جس سے انصاف کے کم سے کم درجے کے تقاضے بھی پورے نہیں ہوتے۔ عدالتوں نے دنیا کو ہمیشہ ایسے جابرآنہ قوانین سے نجات دلانے کا پارٹ ادا کیا ہے۔ اس پارٹ کے خلاف یہ پہلی مثال پاکستان میں قائم ہوئی ہے۔