میں قومی حکومت اور بیرونی ظالموں کی غلامی میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ جب کہ اپنے ان کے ساتھ وہ سب زیادتیاں کئے ڈالتے ہوں۔ جو باہر کا کوئی غیرآکر کر سکتا ہو۔ نیز جس شخص کی جان، مال، آبرو، عزت نفس، ہر چیز اپنے ملک میں پامال کر ڈالی گئی ہو۔ اس کے لئے پھر وہ کون سی قیمتی چیز باقی رہ جاتی ہے۔ جسے باہر والوں سے بچانے کے لئے وہ ملک کی آزادی کے تحفظ کے لئے قربانی دینے کی ضرورت محسوس کرے۔ اس لئے نہ صرف عقل اور اخلاق کا، بلکہ قومی آزادی، اور قومی ریاست کے استحکام کی اہم ترین مصلحت کا بھی یہ تقاضا سمجھا گیا کہ انتظامی حکومت عوام کے چنے ہوئے آدمیوں کے قابو میں ہو اور یہ عوامی آدمی ہر چند سال کے بعد انتخابات میں انہی عوام کے سامنے آنے پر مجبور ہوں۔ جن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔ اس طریقے کے دو فائدے ہیں۔ ایک یہ کہ عوامی آدمی (ان تمام عیوب کے باوجود جو سیاست بازی سے پیدا ہوتے ہیں) نوکر شاہی کی طرح صرف حکم چلانے اور لااینڈ آرڈر کی لاٹھی گھمانے والے نہیں ہوتے۔ بلکہ انہیں ایک مدت تک سیاسی میدان میں کام کرنے کی وجہ سے عوام کی بات سمجھنے اور ان کو اپنی بات سمجھانے کی تربیت مل چکی ہوتی ہے۔ وہ ڈنڈے کے بجائے حکمت اور تدبر سے معاملات کو سلجھا سکتے ہیں۔ ملک کا انتظام ان کے زیرنگرانی ہونے کی وجہ سے اس کی نوبت بہت کم پیش آتی ہے کہ کوئی مسئلہ تمدنی، معاشی،معاشرتی یا سیاسی، افہام وتفہیم اور گفت وشنید سے حل ہونے کے بجائے لااینڈ آرڈر کا مسئلہ بن جائے اورلاٹھی چارج اور گولیوں کی باڑھ سے حل کیا جانے لگے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو سال دوسال یا چارسال بعد پھر انتخابات میں عوام کے سامنے جانا ہو۔ وہ ان لوگوں کی طرح عوام پر گولیاں چلانے میں بے باک اور ان کے سرتوڑنے میں بے درد نہیں ہوسکتے۔ جن کی نوکری مستقل ہو اور اس نوکری پر جن کا قائم رہنا یا نہ رہنا عوام کے ووٹ پر موقوف نہ ہو۔
یہ ہے جمہوریت کی جان۔ مگر رپورٹ کے فاضل مصنفین کی نگاہ میں یہی جمہوریت کا عیب ہے۔ جس کی وہ جگہ جگہ شکایت کرتے ہیں۔ رپورٹ معاملے کو اس طرح سامنے لاتی ہے کہ قادیانی مسئلے میں ساری خرابی اس لئے پیدا ہوئی کہ حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی۔ جنہیں عوامی مطالبات کو رد کرنے اور زبردستی دبادینے میں اس بناء پر تأمل تھا کہ کل انتخابات میں انہیں اسی پبلک کے سامنے آنا تھا۔ ان کے نزدیک اگر انتظامی حکومت کے کچھ شیر خدا اور رستم داستان۱؎ پورے اقتدار کے مالک ہوتے تو مطالبات کی کلی کھلنے سے پہلے ہی مسل ڈالی گئی ہوتی اور ان
۱؎ ملاحظہ ہو رپورٹ ص۳۸۴۔