ان تین عبارتوں میں دو بالکل مختلف باتیں سامنے آتی ہیں۔ پہلی اور دوسری عبارت کا حاصل کلام یہ ہے کہ ہمارے ملک کے عوام صحیح الدماغ ہیں۔ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لئے یہاں جمہوریت کا یہ اصول چل سکتا ہے اور چلنا چاہئے کہ مختلف نقطۂ نظر رکھنے والے لوگ عوام کو اپنا نقطۂ نظر مناسب طریقے سے سمجھانے کی کوشش کریں اور رائے عامہ کا فیصلہ جس کے حق میں بھی ہو اس کی بات چلے۔ دوسری عبارت اس کے برعکس دوسری بات کہتی ہے۔ (بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) واعتقادی بحث کا حامل ہے۔ رپورٹ کا قاری محض یہ جاننا چاہتا ہے کہ عدالت کا اصل منشاء کیا ہے؟ بظاہر تو یہ دیکھتا ہے کہ پہلے ایک مقدمہ قطعی شکل میں بیان کیاگیا ہے کہ پاکستان کے باشندے جمہوریت کے لائق نہیں ہیں۔ پھر اس سے منطقی نتیجہ یہ نکال کے سامنے رکھ دیا گیا ہے کہ یہاں وہ نہیں ہونا چاہئے جو باشندے چاہیں۔ بلکہ وہ ہونا چاہئے جو لیڈر چاہیں۔ لیکن اگر لیڈروں کی تبلیغ وتلقین کے باوجود باشندوں کی چاہت لیڈروں کی چاہت سے مختلف ہی رہے تو پھر باشندوں کے بجائے لیڈروں کی چاہت نافذ ہونی چاہئے۔ مگر یہ منطقی نتیجہ ایک اور قضیہ سامنے لا رکھتا ہے۔ جسے اگر رپورٹ میں حل کر دیا گیا ہوتا تو بہت اچھا ہوتا کہ خود لیڈر کس کی چاہت سے لیڈر بنیں گے؟ اگر وہ باشندوں کی چاہت سے بنیں گے تو ان کو لیڈر بناتے وقت ان جاہل، ان پڑھ، ووٹ کی قیمت نہ جانے والے اور مسائل ومعاملات کو سمجھنے کی ضروری عقل وشعور نہ رکھنے والے لوگوں کا فیصلہ صحیح ہوگا یا غلط؟ اگر صحیح ہوگا تو اس سارے حکیمانہ استدلال کی بنیاد منہدم ہوجاتی ہے جو اوپر کیاگیا ہے اور اگر غلط ہوگا تو پھر لیڈروں کے تقرر کی دو ہی صورتیں رہ جاتی ہیں۔ یا تو انہیں کوئی عدالت مقرر کر دیا کرے یا پھر طاقت کے بل پر جو قسمت آزما لوگ بھی ایک دفعہ ملک پر مسلط ہو جائیں وہ دعویٰ کر دیں کہ اب ہم یہاں کے لیڈر ہیں۔ ہم باشندوں کی مرضی پر نہیں چلیں گے۔ بلکہ اپنی مرضی ان پر چلائیں گے۔ اس صورت میں پھر یہ مسئلہ لاینحل رہ جاتا ہے کہ اگر اس شان کے حکمران خود بگڑ جائیں اور مسائل ومعاملات کے سمجھنے میں ضروری عقل وشعور کے نہ ہونے کا ثبوت دے دیں تو ان کی اصلاح کرنے یا ان سے نجات پانے کا قوم کے پاس کیا ذریعہ ہوگا؟ ہاں مگر یہ بحثیں تو تحقیقاتی عدالت کے دائرہ سے خارج ہیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ تحقیقاتی عدالت نے ایک خاص صورت حالات پر رپورٹ پیش کی ہے۔ نہ کہ پاکستان کے لئے سیاسی نظام تجویز کرنے پر کوئی مقالہ لکھا ہے۔ اس بات کی طرف توجہ جانے پر قاری مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنے دل کے سوالات واپس لے لے اور چپ چاپ آگے بڑھ جائے۔