ہمارے۱؎ سامنے مختلف جماعتوں کے قابل وکیلوں نے باربار جمہوری اصولوں کی دہائی دی ہے اور زور شور سے یہ بات پیش کی گئی ہے کہ یہ مطالبات متفق علیہ تھے اور ایک جمہوری ملک میں جب ایک خاص مطالبہ ایسی پرزور اور ہمہ گیر تائید اپنی پشت پر رکھتا ہو تو حکومت کو لازماً اسے مان لینا چاہئے۔ خواہ اس کو مان لینے کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ کہاگیا ہے کہ ہمارے سیاسی لیڈر، جو عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوئے ہیں۔ اپنی موجودہ پوزیشن پر اسی وجہ سے فائز ہیں کہ باشندوں نے ان کو اس جگہ بٹھایا ہے۔ اس لئے ان کو وہی کرنا چاہئے جو ان کے ووٹر چاہتے ہیں کہ کیا کیا جائے۔ یہی اصول ہمارے سامنے خود وزارت اور مسلم لیگ۲؎ کی جانب سے بھی پیش کیاگیا ہے اور زور دے کر کہاگیا ہے کہ ایک نمائندہ طرز کی حکومت میں ایک سیاسی لیڈر صرف اسی صورت میں لوگوں کا نمائندہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جب کہ وہ لوگوں کے جذبات، تعصبات اور تمناؤں کا احترام کرے اور ان کو عمل میں لائے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہمارے لیڈروں کے لئے یہ ایک گھٹیا مطح نظر ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں باشندوں کی عظیم اکثریت غیرتعلیم یافتہ ہے اور خواندہ لوگوں کا اوسط ان میں بہت کم ہے۔ اس اصول کا تسلیم کئے جانا بڑے پریشان کن نتائج کی طرف لے جانے والا ہے کہ ہمارے لیڈر عوام کی جہالت اور ان کے تعصبات کے مظہر بن کر رہیں اور بلند تر افکار ومقاصد سے خالی ہوں۔ جہاں ووٹر اپنے ووٹ کی قدر وقیمت جانتا ہو اور اپنے ملک کے مخصوص مسائل اور وسیع تر دنیا کے واقعات ورفتار احوال کو سمجھنے کے لئے ضروری عقل وشعور رکھتا ہو اور قومی معاملات میں صحیح رائے قائم کرنے کے لئے کافی نشوونما پائے ہوئے ذہن کا مالک ہو۔ وہاں تو ضرور لیڈر کو عوام کے فیصلے کی پابندی کرنی چاہئے۔ ورنہ کرسی خالی کردینی چاہئے۔ لیکن ایک ایسے ملک میں جیسا کہ ہمارا یہ ملک ہے۔ ہمیں اس امر میں بہت کم شک ہے کہ لیڈروں کا کام باشندوں کو اپنے پیچھے چلانا ہے نہ کہ ان کے پیچھے چلنا۔ مسٹر قربان علی خاں کے بقول بے زبان مویشیوں کی طرح چلنا۳؎۔ (ص۲۷۵،۲۷۶)
۱؎ یہ عبارت اوپر والی عبارت کے ٹھیک ۱۶ہی سطر بعد سامنے آجاتی ہے۔
۲؎ غالباً دولتانہ وزارت اور پنجاب مسلم لیگ مراد ہے۔
۳؎ قطع نظر اس سے کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ جیسی ایک تاریخی اہم دستاویز میں اس عبارت کا موجود ہونا عملی حالات پر اثر انداز ہوسکتا ہے اور اس کی وجہ سے جمہوریت کے نشوونما میں حائل ہونے والی طاقتوں کے ہاتھ مضبوط ہوسکتے ہیں اوراس بات کو بھی درکنار رکھتے ہوئے یہ کہ حصہ زیر تحقیق واقعات معاملات ومسائل سے ہٹ کر ایک نظریاتی (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)