دے دے تو اس کو عملاً نافذ ہونا چاہئے۔ مگر ایک مقام پر اس عبارت کو پڑھنے کے بعد جب آگے چل کر اس سے برعکس نتیجہ دینے والی عبارت سے آدمی دو چار ہوتا ہے تو وہ ٹھٹک کر رہ جاتا ہے۔ ذیل کے اقتباسات کو پڑھ کر دیکھئے: ’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا عام آدمی درحقیقت سلیم الطبع ہے اور اگرچہ وہ دنیا کے دوسرے لوگوں کی طرح، بلکہ غالباً دوسرے سب لوگوں سے زیادہ مذہبی رجحانات رکھتا ہے۔ پھر بھی وہ معاملات کو ان کے صحیح پہلو سے سمجھنے کی قابلیت رکھتا ہے۱؎۔ بشرطیکہ وہ معاملات اس کے سامنے مناسب طریقہ سے پیش کئے جائیں۔ ایک نئی ریاست کا ایماندار اور محب وطن شہری ہونے کی وجہ سے وہ ہمارے لیڈروں کی بات ضرور سنتا۔ اگر اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی کہ سیاسی نامرادی سے دوچار ہونے والے چند لوگوں نے اپنے پچھلے گناہوں کو دھونے کے لئے عوامی احساسات کو اکسا کر جو طوفان کھڑا کر دیا ہے۔ اس میں کیا خطرناک امکانات مضمر ہیں۔ بازار میں چلنے پھرنے والا عام آدمی اس بات کو سمجھ لیتا۔ اگر اسے ٹھیک طریقہ سے بتایا جاتا کہ ایک سیاسی جماعت جو مسلم لیگ کے رقیب کی حیثیت سے میدان میں آنا چاہتی ہے۔ دراصل عوام کی نگاہ میں اپنا وقار واثر بڑھانے کے لئے مذہب کا سہارا لے رہی ہے اور اسے بیوقوف بنارہی ہے۲؎۔‘‘ (ص۲۷۵)
۱؎ اس فقرے کو پڑھتے ہوئے اگر یہ تاثر پیدا ہو کہ مذہبی رجحان ایک ایسی چیز ہے۔ جس سے آدمی کی سلیم الطبعی میں نقص واقع ہو جاتا ہے اور وہ معاملات کو ان کی صحیح روشنی میں دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کم وبیش کھو دیتا ہے تو پیش نظر رپورٹ قاری کو نہ تو اس تاثر سے بچانے میں کوئی مدد دیتی ہے اور نہ اس سوال کا کوئی جواب دیتی ہے کہ غیر مذہبی یا مخالف مذہب رجحانات کا آدمی کی سلیم الطبعی پر کیا اثر ہوتا ہے۔
۲؎ اس قابل غور مقام پر پہنچ کر رپورٹ کا طالب علمانہ مطالعہ کرنے والا آدمی بڑی سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا عدالت درحقیقت یہ کہنا چاہتی ہے کہ سلیم الطبعی اور حب وطن اور ایماندارانہ شہریت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ہمارا عام آدمی معاملات کو اس پہلو سے دیکھے اور سمجھے اور قادیانیوں کے متعلق تینوں مطالبات کو رد کر دے۔ لیکن اگر وہ پھر بھی نہ مانے اور مذہبی رجحانات ہی کی بنا پر آخری فیصلہ ان مطالبات کے حق میں دے دے تو لازماً یا تو اس کی سلیم الطبعی کا انکار کرنا پڑے گا۔ یا حب وطن اور ایماندارانہ شہریت کا۔ بظاہر اس کی توقع نہیں ہونی چاہئے۔ لیکن دیکھنا تو یہ ہے کہ رپورٹ کے الفاظ ہمیں کس مدعا تک لاتے ہیں۔