باغ لاہور اور راولپنڈی والی تقریروں) سے واضح طور پر نکلتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ احمدیوں کے متعلق مطالبات اپنی نوعیت کے اعتبار سے درحقیقت دستوری مطالبات ہیں۔ اس لئے صرف مرکزی اصحاب اقتدار ہی ان کے متعلق کوئی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ یعنی آل پاکستان مسلم لیگ، مرکزی حکومت اور مجلس دستور ساز پاکستان۔‘‘ (ص۲۶۴)
۴… ’’مسلم لیگ کے ۲۷؍جولائی والے ریزولیوشن کے بعد ہر شخص جو اس تحریک میں دلچسپی رکھتا تھا۔ اس دستوری پوزیشن کو پوری طرح سمجھ گیا کہ صوبہ میں پروپیگنڈا کرنا بے کار ہے اور یہ کہ جب تک باقاعدہ طریقہ سے یہ مطالبات دستور ساز اسمبلی کے سامنے نہ لائے جائیں۔ ایجی ٹیشن سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ اس وجہ سے جتنی پارٹیاں بھی ان مطالبات کو منوانے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہی تھیں۔ ان کی تمام سرگرمیوں کا رخ مرکزی حکومت کی طرف مڑ گیا۔ جس کے خواجہ ناظم الدین سربراہ کار تھے۔ لہٰذا اگر خواجہ ناظم الدین نے اپنے آپ کو ان مطالبات کے تسلیم کرنے سے معذور پایا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈائرکٹ ایکشن اور پھر ہنگاموں کی نوبت آئی تو اس سارے ماجرے کی ذمہ داری جس طرح آل مسلم پارٹیز کنونشن پر ہے۔ اسی طرح یہ ذمہ داری صریحاً مسلم لیگ پر بھی عائد ہونی چاہئے۔‘‘ (ص۲۷۴)
دیکھئے… فقرہ نمبر:۱ میں عدالت خود تجویز کرتی ہے کہ ان مطالبات کو دستور ساز اسمبلی میں لے جانا چاہئے تھا۔ فقرہ نمبر:۲ میں خواجہ ناظم الدین صاحب خود بتارہے ہیں کہ ان مطالبات کا رخ کس طرف مڑنا چاہئے۔ مگر دوسری طرف فقرہ نمبر۳،۴ میں پنجاب مسلم لیگ کو اس جرم کا قصور وار بتایا جاتا ہے کہ اس نے ان مطالبات کو دستوری مطالبات اور ان کے تسلیم کرنے یا نہ کرنے کو مرکزی لیڈر شپ کے دائرہ اختیار کی چیز قرار دے کر ایجی ٹیشن کا رخ مرکز کی طرف کیوں موڑ دیا۔
اس سے بھی زیادہ دلچسپ ایک اور مثال ملاحظہ ہو۔ ابھی فقرہ نمبر ایک میں آپ عدالت کی یہ رائے ملاحظہ کر چکے ہیں کہ اگر جماعت اسلامی ان مطالبات کی حمایت معاشرتی اور سیاسی وجوہ سے کر رہی تھی تو اسے یا تو مجلس دستور ساز کی رائے کو ہموار کرنا چاہئے تھا۔ یا پھر وہ انتخابات کا انتظار کرتی اور اس مسئلے پر انتخاب لڑ لیتی۔ بالفاظ دیگر عدالت یہاں اس اصول کو تسلیم کرتی ہے کہ اگر رائے عامہ کو ہموار کر لیا جائے اور اکثریت کا ووٹ کسی مطالبہ کے حق میں فیصلہ