مات‘‘ پر ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کے حق میں موت کو ممکن فرماتا ہے۔ اس وجہ کی تائید دوسری آیت سے بھی ہوتی ہے۔ جو حضرت ابوبکرؓ نے اسی وقت حاضرین کو پڑھ کر سنائی تھی۔ وہ آیت یہ تھی۔ ’’انک میت وانہم میتون‘‘ یعنی اے پیغمبر! تو (بھی اپنے وقت مقررہ پر) مرنے والا ہے اور یہ کفار بھی مرنے والے ہیں۔
دیکھو اس آیت میں اﷲتعالیٰ نے آنحضرتﷺ پر میت کا لفظ فرمایا ہے۔ پس اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا استدلال ’’افان مات‘‘ سے ہے نہ کہ ’’قد خلت من قبلہ الرسل‘‘ سے کہ وفات مسیح علیہ السلام کے لئے ضعیف اور غلط طور پر بھی مفید ہوسکے۔
سوم… یہ کہ دجال کا خروج اور عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ایک طرح سے دونوں آپس میں ایسے لازم وملزوم ہیں کہ ایک کا ماننے والا ضرور دوسری کامصداق ہے۔ پس جب حضرت ابوبکرؓ دجال کے خروج کی حدیث کے راوی ہیں تو آپ نزول عیسیٰ علیہ السلام سے کب غافل ہیں۔ (سنن ابن ماجہ باب خروج الدجال)
چہارم… یہ کہ حضرت ابوبکرصدیقؓ کی غرض ان آیات کے پڑھنے سے اس وہم کا ازالہ ہے کہ آنحضرتﷺ فوت نہیں ہوسکتے۔ پس چونکہ وصف نبوت وموت میں منافات ہونے کو علیٰ سبیل الحکایات باطل کرنا مقصود بالذات ہے۔ پس خطبۂ صدیقی اس امر پر تو بعبارت النص دلالت کرتا ہے۔ لیکن یہ امر کہ سب انبیاء مرچکے ہیں۔ نہ تو خطبۂ صدیقی کا مفاد ہے اور نہ اس پر مخاطبین کے مزعوم کی تردید موقوف ہے۔ کیونکہ سالبہ کلیہ کی نقیض موجبہ جزئیہ ہوتی ہے، نہ کہ کلیہ۔ پس اس سے وفات مسیح علیہ السلام پر اجماع صحابہؓ کا دعویٰ کرنا خلاف روایت بلکہ درایت بھی ہے۔
کیونکہ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بالتصریح پکار رہی ہے کہ وہ سب صحابہؓ کے درمیان آیت: ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (النسائ:۱۵۹)‘‘ میں ’’موتہ‘‘ کی ضمیر کا مرجع عیسیٰ علیہ السلام قرار دے کر آپ کا نزول ثابت کر رہے ہیں اور اس تصریح نزول کے موقع پر کوئی صحابی نہ تو نفس مضمون یعنی نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے انکار کرتا ہے اور نہ حضرت ابوہریرہؓ کے ضمیر کا مرجع حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قرار دینے کو غلط کہتا ہے اور نہ آپ کے استدلال کو ضعیف قرار دیتا ہے۔
پس اجماع حیات ونزول عیسیٰ علیہ السلام پر ہوا نہ کہ وفات پر۔ قطع نظر اس سے کہ یہ روایت صحیح بخاری عیسیٰ علیہ السلام کے حیات ونزول پر اجماع صحابہ کو ثابت کر رہی ہے۔