اور کن کی نہیں۔ بظاہر نہ تو اس عدالت میں تصفیہ طلب ہی تھے اور نہ ان کو کبھی باقاعدہ ایک تنقیح بنا کر کسی سے اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے کہاگیا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات ہے کہ مطالبات تسلیم کرانے کے لئے ڈائرکٹ ایکشن کے جائز ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں جماعت اسلامی کا جو مسلک پوری وضاحت کے ساتھ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنے دوسرے اور تیسرے بیانات کے آخر میں بیان کر دیا تھا۔ رپورٹ اسے سامنے لانے کے بجائے جماعت کو ایک ایسے مسلک کے ساتھ پیش کرتی ہے جو ان بیانات، جماعت کے عملی رویے، اس کے دستور اور لٹریچر سے کوئی میل کھاتا نظر نہیں آتا۔ ملاحظہ ہو: ’’جہاں ایک عوامی مطالبہ ہو اور حکومت اسے نہ قبول کرے اور نہ اس پر غور کرنے کے لئے راضی ہو وہاں تمام دستوری ذرائع بالائے طاق رکھے جاسکتے ہیں اور حکومت کو بغاوت (Civil Revolt) کا نوٹس دیا جاسکتا ہے۔‘‘
نظریہ ومسلک کی تعبیر وترجمانی کا ایسا ہی ایک اور نمونہ ہم کو صفحہ ۳۸۱ پر ملتا ہے۔ جس کو ہم بڑے افسوس کے ساتھ یہاں نقل کرتے ہیں۔
’’حکومت فوج کوبلا قید وشرط استعمال کرنے میں تأمل کر رہی تھی۔ جس کی وجہ جیسا کہ میاں انور علی کہتے ہیں۔ یہ تھی کہ اسے خون خرابے کا اندیشہ تھا اور وزراء سربرآوردہ شہریوں کے اس احتجاج سے پریشان ہوگئے تھے کہ پولیس تشدد کرنے والے مجمعوں پر بھی کیوں گولیاں برسا رہی ہے۔ ہم پھر اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ احتجاج تشدد کرنے والے مجمعوں پر بھی گولیاں برسانے کے خلاف تھا۔ ان مجمعوں پر جنہوں نے اس سے زیادہ کچھ نہ کیا تھا کہ کسی پولیس اسٹیشن پر اینٹیں برسادیں۔ یا کسی آتی جاتی بس کو کہیں کہیں جلادیا یا کسی گناہ گار پوسٹ آفس کو آگ لگادی۔ یا مسافروں سے بھری ہوئی کسی ریل پر پتھر برسادئیے۔ کیونکہ وہ اسٹیشن سے نکلنا چاہتی تھی۔ یا ان ٹانگے والوں اور دکانداروں کے منہ کالے کر دئیے جو اپنا کاروبار کر رہے تھے۔‘‘
اس طنزیہ انداز بیان سے قطع نظر کرتے ہوئے سوال یہ سامنے آتا ہے کہ گورنمنٹ ہاؤس کے ۵؍مارچ والے اجتماع میں یا اور کسی دوسرے موقع پر کسی سربرآوردہ شہری نے کبھی تشدد کرنے والے مجمعوں پر گولی چلانے کے خلاف احتجاج کیا تھا؟ شکایت ہر جگہ ہر شخص کی طرف سے جب بھی کی گئی ہے۔ اندھا دھند گولی برسانے (Indiscriminate Firing) کے خلاف کی گئی ہے۔ جس سے راہ چلتوں ہی کو نہیں، کوٹھیوں پر سے جھانکنے والوں تک کو شکار کیاگیا۔ یہ احتجاج جب گورنمنٹ ہاؤس کی میٹنگ میں کیاگیا تھا تو آئی جی پولیس سامنے موجود تھے اور ان