ہمارے لئے اس رپورٹ کا یہ بالکل ایک نیا انکشاف ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کبھی اسلامی ریاست کے تصور کے مخالف تھے۔ اس ملک میں لاکھوں آدمیوں نے جماعت کا لٹریچر پڑھا ہے۔ وہ یقینا اس انکشاف کو سن کر حیران رہ جائیں گے۔ کیونکہ ان میں کسی کو بھی اس لٹریچر میں وہ بات نہ ملی جو ہمارے ان دو فاضل ججوں کے قلم سے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی سے منسوب ہوگئی۔ رہا آخری فقرہ تو اس سیاق وسباق میں وہ جو معنی دے رہا ہے۔ وہ اصل حقیقت کے بالکل برعکس نظر آتا ہے۔ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے تقسیم ہند سے پہلے جس بناء پر یہ کہا تھا کہ مجوزہ پاکستان ایک اسلامی ریاست نہ بن سکے گا۔ وہ یہ نہ تھی کہ وہ اسلامی ریاست کے قیام کے مخالف تھے۔ بلکہ اس کے برعکس وہ تو مسلم لیگ سے اس لئے الگ رہے کہ ان کو امید نہ تھی کہ اس ذہنیت اور اس کریکٹر کی جماعت کے ہاتھوں کبھی کوئی اسلامی ریاست وجود میں آسکے گی۔ نیز جس وقت یہ بات کہی گئی تھی اس وقت تقسیم کی تجویز میں نہ تو بنگال وپنجاب کی تقسیم شامل تھی اور نہ آبادی کے تبادلے کی کوئی اسکیم کسی کے ذہن میں تھی۔ اس صورت میں متحدہ بنگال کی ۴۶فیصدی اور مغربی پاکستان (بشمول متحدہ پنجاب) کی تقریباً ۴۰فیصدی غیرمسلم آبادی کی موجودگی میں جب کہ خود مسلمانوں کے مغرب زدہ اصحاب اقتدار بھی اس کے ہمنوا ہو جائیں۔ بظاہر اس کا کوئی امکان نظر نہ آتا تھا کہ پاکستان میں اسلامی ریاست کا نام بھی لیا جاسکے گا۔ چنانچہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ اظہار رائے اسی استدلال کے ساتھ کیا تھا۔ جس کا مطبوعہ ریکارڈ موجود ہے۔
آگے چل کر صفحہ۲۴۳ اور ۲۴۴ پر جماعت اسلامی کی پوزیشن پھر ایسی شکل میں سامنے آتی ہے۔ جسے نہ جماعت قبول کرنے پر تیار ہوسکتی ہے۔ نہ جماعت کا لٹریچر اور اس کی عملی تاریخ اس کی تائید کرتی ہے اور نہ جماعت کو جاننے اور سمجھنے والے لوگ آسانی سے اس کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ بلکہ اس موقع پر ایسے ایسے امور زیر بحث لائے گئے ہیں۔ جن کے بارے میں رپورٹ کا طالب علمانہ مطالعہ کرنے والاکوئی شخص اس سوال سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ آیا یہ امور اس تحقیقات میں عدالت کے لئے فی الواقعہ تصفیہ طلب تھے؟ کیا ان کو باقاعدہ تصفیہ طلب مسائل کی حیثیت دے کر جماعت سے مطالبہ کیاگیا کہ وہ ان میں اپنی پوزیشن کو خود واضح کرے؟ مثلاً یہ سوالات کہ تقسیم سے پہلے پاکستان کے قیام کے معاملہ میں کس جماعت کی کیا پوزیشن تھی یا یہ کہ اپنے نصب العین کے حصول کے لئے کون سی جماعت کن ذرائع ووسائل کے استعمال کی قائل ہے