عزتوں پر زد
کچھ مواقع ایسے بھی آتے ہیں۔ جہاں پڑھنے والے کو بعض اصحاب کی عزت پر بھی زد پڑتی معلوم ہوتی ہے۔ ایسے چند مواقع کو ہم ذیل کے اقتباسات کے ذریعے پیش کرتے ہیں۔ ’’قاضی مرید احمد سرگودھا میں ایک بے حیثیت آدمی تھا۔ کوئی انکم ٹیکس نہیں دیتا تھا اور صرف بیس کنال زمین کا مالک تھا۱؎۔‘‘ (ص۲۷۴)
’’مسئلہ قادیانیت کا بچہ ابھی زندہ ہے اور اس کا منتظر ہے کہ کوئی آکر اسے اٹھالے اور اس دولت خداداد پاکستان میں اپنی زندگی بنانے کا موقع ہر شخص کے لئے موجود ہے۔ سیاسی لٹیروں کے لئے، طالع آزماؤں کے لئے، بے حیثیت لوگوں کے لئے۔ صرف دو آدمی ہمارے سامنے ایسے آئے جنہوں نے اپنے لئے زندگی بنانے کا یہ راستہ اختیار کرنے سے انکار کیا اور وہ تھے وزیر مواصلات خان سردار بہادر خاں اور ایڈیٹڑ نوائے وقت مسٹر حمید نظامی۔ ان دونوں نے اس بچے کو اس کے تمام نتائج کے ساتھ رد کر دیا۲؎۔‘‘ (ص۳۸۶)
(بقیہ حاشیہ گذشتہ صفحہ) ایسا قطعی فیصلہ دینے سے قبل عدالت کو متعلقہ ضروری معلومات حاصل ہوگئی ہوتیں کہ آیا تعلیمات اسلامی بورڈ کے ارکان ضابطۂ ملازمت کے مطابق سرکاری ملازم تھے بھی یا نہیں؟ بورڈ تو بلاشبہ ایک سرکاری ادارہ تھا۔ مگر اس کے ارکان باقاعدہ ملازم سرکار نہ تھے۔ بلکہ ان کی حیثیت سرکاری کمیٹیوں میں حصہ لینے والے غیرسرکاری آدمیوں کی سی تھی اور ان کی تنخواہ نہیں بلکہ ’’اعزازی حق الخدمت‘‘ ملتا تھا۔ ان کو قانوناً کوئی چیز ان پابندیوں میں جکڑنے والی نہ تھی۔ جو صرف سرکاری ملازموں پر عائد ہوتی ہیں۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو عدالت سے پہلے خود وہ محکمہ ان پر گرفت کرتا۔ جس کے وہ ملازم سمجھے گئے ہیں۔
۱؎ اس مقام سے گزرتے ہوئے قاری اس سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ کیا آدمی کی عزت وحیثیت ناپنے کا پیمانہ بس یہ ہے کہ آدمی انکم ٹیکس دیتا ہے یا نہیں اور کتنی زمین کا وہ مالک ہے؟
۲؎ بات مبہم سی رہ گئی۔ کیا عدالت کا اصل منشا یہ ہے کہ قادیانی مسلم نزاع میں جو لوگ بھی قادیانیت کے مخالف اور تین مطالبات کے حامی تھے۔ وہ سب کے سب سیاسی لٹیرے، طالع آزما اور بے حیثیت لوگ تھے اور ان کے سامنے اپنی زندگی بنانے کے سوا اس مسئلے سے دلچسپی لینے کا کوئی اور مقصد نہ تھا؟ عدالت کے سامنے اس سلسلہ میں جتنے لوگ پیش ہوئے۔ ان میں سے حمید نظامی اور سردار بہادر خاں کے سوا کوئی اس ہمہ گیر ریمارک سے مستثنیٰ نہیں ہے؟ اور یہ دونوں اصحاب کیا صرف اس لئے مستثنیٰ ہونے کا شرف حاصل کر گئے کہ انہوں نے عدالت میں ان مطالبات کو غلط قرار دیا یا کسی دوسری وجہ سے؟ افسوس ہے کہ رپورٹ کا اس موقع پر انداز بیان ایسا ہے کہ مدعا کھلتا نہیں۔