’’فی الواقع ڈائرکٹ ایکشن میں حصہ لینے والوں میں سے کوئی شخص بھی یہ نہیں مان سکتا تھا کہ یہ مطالبات سیاسی نوعیت کے تھے۔ کیونکہ اسے تسلیم کر کے وہ اپنے آپ کو ہنگاموں کا براہ راست ذمہ دار بنالیتا۔ ان مطالبات کی مذہبی نوعیت کا اقرار ہر ایک متعلق شخص کو مجبوراً کرنا پڑا ہے۔ جس کا مقصد یہ تھا کہ ایک دنیوی غرض کے لئے ہنگامے برپا کرنے کی ذمہ داری سے بچا جائے۱؎۔‘‘ (ص۱۸۵)
۵؍مارچ کی سہ پہر کو گورنمنٹ ہاؤس میں شہریوں کا جو جلسہ ہوا تھا۔ اس میں کوئی لیڈر، سیاسی آدمی، یا شہری آدمی اس کے لئے تیار نہ تھا کہ عوام الناس کے اچھے احساسات سے اپیل کرنے کے لئے ایک بیان پر دستخط کر کے غیر ہر دلعزیز یا نشانۂ ملامت بننے کا خطرہ مول لیتا۲؎۔ (ص۲۳۴)
۱؎ مطالبات کی مذہبی نوعیت اور سیاسی نوعیت میں درحقیقت ایک الجھاؤ تھا۔ وہ مذہبی اس بناء پر تھے کہ ان کی ابتداء مسلمانوں اور قادیانیوں کے درمیان ایک مذہبی نزاع سے ہوئی تھی اور سیاسی اس بناء پر کہ ابتدائی مذہبی نزاع نے عملاً جو معاشرتی اور معاشی خرابیاں پیدا کر دی ہیں۔ ان کو رفع کرنے کے لئے دستوری اور انتظامی تدابیر اختیار کرنے کا مطالبہ کیاگیا تھا۔ اس طرح ایک ہی معاملے میں مذہبی اور سیاسی نوعیتیں خلط ملط ہوگئی تھیں اور مطالبات کو سیاسی کے بجائے مذہبی کہنے کی لازماً صرف وہی ایک وجہ نہیں ہوسکتی تھی جو عدالت نے نہ جانے کن شاہد ودلائل کی بناء پر (جن کا رپورٹ میں تو ذکر ہے نہیں) بلا استثناء ہر اس شخص کی طرف منسوب کر رہی ہے۔ جس نے ان مطالبات کو مذہبی نوعیت کا قرار دیا۔ خالص دیانتدارانہ رائے کی بناء پر بھی ایک شخص ان کو مذہبی کہہ سکتا تھا۔ یہاں پھر یہ سوال حل طلب رہ جاتا ہے کہ دو برابر کے امکانات میں سے ایک کو اختیار کرنے کے لئے عدالت کے پاس کون سی معقول وجہ تھی؟ اور افسوس ہے کہ رپورٹ اس سوال کا کوئی جواب نہیں دیتی۔
۲؎ کوئی شخص جس کو پبلک لائف کا کچھ بھی تجربہ ہے۔ اس بات سے ناواقف نہیں ہوسکتا کہ جس وقت حکومت اور عوام میں کسی مسئلے پر تصادم ہو جاتا ہے اور لاٹھی چارج اور فائرنگ کی وجہ سے عام آبادی بھڑک اٹھتی ہے۔ اس وقت اصل مسئلے کے حل کی کوئی قابل اطمینان صورت پیش کئے بغیر محض امن کی اپیل کرنا (خصوصاً جب کہ وہ گورنمنٹ ہاؤس میں بیٹھ کر کی گئی ہو) قطعاً لا حاصل ہوتا ہے اور اس سے صورتحال میں ایک رائے برابر بھی کوئی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ لہٰذا اس مجوزہ اپیل پر دستخط نہ کرنے کی بھی لازماً وہی ایک وجہ نہ ہوسکتی تھی جو عدالت نے بیان کی ہے۔ دوسری وجوہ کا بھی یکساں امکان تھا۔ (بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)