مولانا شبیر احمد عثمانی آرک بشپ آف پاکستان۔ (صفحہ۳۰۲)
عملے کے کلرکوں نے خصوصیت کے ساتھ سکرٹریٹ اور اکاؤنٹنٹ جنرل کے دفتروں (دو بڑے مذہبی اداروں۱؎) میں کام چھوڑ دیا۔ (ص۳۵۷)
اسی طرح کے طنزیات سے رپورٹ کا دامن مالا مال ہے۔ ایک سنجیدہ مسئلے میں بحث کرتے ہوئے ایک ایسے اسلوب کا استعمال کرنا جو معمولاً کسی مابہ النزاع مسئلے میں ایک نقطۂ نظر کی حمایت ووکالت اور دوسرے کی تردید ومخالفت کے لئے استعمال ہوا کرتا ہے۔ کس نہ کسی پڑھنے والے کو بے جاطور پر غلط فہمی میں ڈال سکتا ہے۔ ہماری عدلیہ کا وقار اتنی اونچی چیز ہے کہ ہم اسے غلط فہمیوں کے امکان سے بھی بلندوبرتر دیکھنے کے متمنی ہیں۔
نیتوں پر اظہار رائے
اس رپورٹ میں ایک خاص بات یہ بھی قاری کے سامنے آتی ہے کہ بہت سے لوگوں کی نیتوں کے خلاف بھی اظہار رائے کیاگیا ہے اور یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ اس اظہار رائے کا حصہ تقریباً سارے کا سارا ان اشخاص کو ملا ہے جو قادیانی مسئلے میں ایک ہی رجحان کے حامل تھے۔ ان تمام اشخاص میں سے صرف ایک خواجہ ناظم الدین صاحب کا معاملہ استثناء رکھتا ہے۔ اس رپورٹ کو پڑھنے والے کی نگاہ میں ان سب کی دیانت مشتبہ ہو جاتی ہے۔ زندہ لوگ تو خیر، جو حضرات رپورٹ کی ترتیب کے وقت (بلکہ ڈائرکٹ ایشن اور اس کی تحقیقات سے بھی قبل) انتقال فرماچکے تھے وہ بھی نہیں بچے۔ اس اظہار رائے کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔ ’’ایک شخص عبدالغفار اثر بی۔اے بھی جو اس سے پہلے (گوجرانوالہ میں) طوائفوں کے خلاف اپنی جدوجہد میں کامیاب ہوچکا تھا۔ اپنا حلقۂ اثر بڑھانے کی خاطر اس تحریک میں شریک ہوگیا۲؎۔‘‘ (ص۱۷۴)
۱؎ غالباً اس طنز کے پیچھے یہ نظریہ کام کر رہا ہے کہ مذہبی مسائل سے صرف اہل مسجد کو دلچسپی ہونی چاہئے۔ سرکاری دفاتر کے ملازموں کا مذہب سے کیا واسطہ۔
۲؎ رپورٹ نہیں بتاتی کہ عدالت کو کس معقول ذریعہ سے معلوم ہوا کہ عبدالغفار اثر صاحب کی شرکت ایماندارانہ رائے اور دلی جذبے کے بجائے محض اپنا حلقۂ اثر بڑھانے کی خاطر تھی۔