’’علماء کے ساتھ آمنے سامنے کی ٹکر ایک طرف اور پاکستان کے بین الاقوامی برادری سے نکال دئیے جانے کا خطرہ دوسری طرف۱؎… ان دونوں کے درمیان خواجہ ناظم الدین کے لئے بس ایک ہی راستہ کھلا تھا کہ علماء سے رحم کی اپیل کریں۔ اپیل ملک کے نام پر، ان لوگوں کے نام پر جو فاقہ کشی کے فوری خطرے سے دو چار تھے۲؎… مگر بھلا ملک اور باشندوں اور بھوک جیسی متبذل چیزوں کی بھی اﷲ کے حکم اور اس کی خواہش کے مقابلے میں کوئی حقیقت ہے اور علماء اسی حکم اور خواہش کو لے کر خواجہ ناظم الدین کے پاس آئے تھے۔ اس لئے وہ سخت اور غیرمتاثر رہے۔ خواجہ ناظم الدین نے ان کو یاد دلایا کہ چوہدری ظفر اﷲ خاں کو ان کے منصب پر خود قائداعظم نے مقرر فرمایا تھا۔ کیا وہ مرحوم بانی ٔ ریاست کے فیصلے کا احترام نہ کریں گے۳؎۔مگر دنیا کی ہر چیز بدل سکتی ہے۔ علماء کی رائے ایک دفعہ قائم ہو جانے کے بعد نہیں بدلتی۔ خواجہ صاحب کی دلیل ان کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔‘‘ (صفحہ۲۸۲)
(خواجہ ناظم الدین کی رائے میں) کفر کے فتوے خلفائے اربعہ کے وقت سے اسلام کی ایک خصوصیت رہے ہیں۔ مگر ان کا یہ نتیجہ کبھی نہیں ہوا کہ جن اشخاص یا طبقوں کے خلاف فتویٰ دیاگیا ہو۔ ان کو شہری حقوق سے محروم کردیا گیا ہو۔ یہ واقعی ایک ایسی ریاست میں بڑی اطمینان بخش بات ہے۔ جہاں فتویٰ اتنے ہی ضروری نظر آتے ہیں۔ جتنی کہ توپیں اور مکھن۔ (صفحہ ۲۹۱)
۱؎ کیا واقعی عدالت کی رائے میں ان مطالبات کو تسلیم کر لینے کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ پاکستان بین الاقوامی برادری سے نکال باہر کیا جاتا؟ (اس مسئلے پر آگے تفصیل کے ساتھ بحث آرہی ہے)
۲؎ کیا واقعی خطرہ یہ تھا کہ ادھر مطالبات تسلیم کئے جاتے اور ادھر امریکہ کی طرف سے فوراً اطلاع آجاتی کہ ہم ان لوگوں کو گیہوں کا ایک دانہ بھی نہیں دے سکتے۔ جو اپنے ملک کی وزارت خارجہ سے فلاں شخص خاص کو ہٹا رہے ہیں۔ اس طرح ان مطالبات کو تسلیم کرتے ہی پاکستان میں ایسا قحط پڑتا کہ لاکھوں آدمی بھوکوں مر جاتے؟
۳؎ افسوس ہے کہ مرحوم کی وہ تاریخی وصیت اس رپورٹ میں شائع نہیں ہوسکی۔ جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ میرے کئے ہوئے دوسرے تقررات میں تو ردوبدل ہوسکتا ہے۔ مگر ایک تقرر میں نے خصوصیت کے ساتھ بانی ٔ ریاست ہونے کی حیثیت سے کیا ہے۔ اس لئے اس میں کبھی ردوبدل نہ ہونے پائے۔