نے شرک کیا اور یہ بھی خبر ہے کہ مسیح بھی اس کو جانتا ہے۔ مگر مسیح کو کیا غرض پڑی کہ بلا سوال ایک ایسے جواب کی طرف متوجہ ہو جس کا ان کو بھی امر مطلوب میں مضر ہونے کا اندیشہ ہو کہ وقت سفارش حکم ہو۔ اے مسیح علیہ السلام! تو خود ہی ان کے شرک کو مانتا ہے اور آپ ہی ان کے حق میں سفارش کرتا ہے۔ پس اس آیت سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیح علیہ السلام اس وقت مردہ اور فوت شدہ ہیں۔ کسی طرح ٹھیک نہیں۔
دوسری آیت جو حضرت مسیح ابن مریم کی وفات پر دلالت کرتی ہے۔ یہ ہے: ’’وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل‘‘
اس آیت کو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے حضرت نبی کریمﷺ کی وفات کے موقع پر تمام صحابہ کرامؓ کے سامنے پڑھا اور اس سے استدلال کیا کہ جس طرح پہلے تمام رسول فوت ہو چکے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیﷺ بھی وفات پاگئے اور ظاہر ہے کہ پہلے رسولوں میں مسیح ابن مریم بھی ہیں۔ پس نہ صرف قرآن کریم کی اس آیت سے بھی مسیح ابن مریم کا وفات یافتہ ہونا ثابت ہے۔ بلکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اور تمام صحابہ کرامؓ کا اس پر اجماع بھی ہے۔
(پیغام صلح مورخہ یکم؍جنوری ۱۹۶۹ئ)
جواب اس مغالطہ عظیمہ کا یہ ہے کہ بعض لوگوں کو جنگ احد کے دن شبہ ہو گیا تھا کہ رسول کو مرنا نہیں چاہئے۔ اسی طرح کا وہم بعض کو آنحضرتﷺ کی وفات پر ہوا کہ آپ ؐ فوت نہیں ہوسکتے۔ خواہ نبیﷺ کی وفات کا واقعہ عظیمہ کے سبب طبیعت پر سخت صدمہ گزرنا اس کا موجب ہوا۔ یا کچھ اور غرض۔ وہم یہی تھا کہ آنحضرتﷺ پر موت نہیں آسکتی۔ پس حضرت ابوبکرصدیقؓ کا اس وہم کو دور کرنے کے لئے اس آیت کو پڑھنا اسی طرح کا ہوا۔ جیسے اﷲتعالیٰ نے نازل کی تھی۔ اس سے مراد اﷲتعالیٰ کی صرف یہی ہے کہ رسالت اور موت میں منافات نہیں ہے۔ پس جس طرح اس آیت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہرگز ثابت نہیں ہوتی۔
اسی طرح خطبہ صدیقیہ سے بھی نبیﷺ کے لئے موت کا آسکنا ثابت ہوا۔ نہ کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات جسے مقصود سے کچھ تعلق نہیں۔ ہاں امکان ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر وقوع نہیں۔
دوم… یہ کہ اس آیت میں آگے ’’افان مات اوقتل‘‘ موجود ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کی نظر آنحضرتﷺ کی موت کے ممکن ہونے کے لئے ’’ان