دینے میں بہت بڑی حد تک ان سرکاری اطلاعات پر انحصار کیا ہے۔ جو مختلف جماعتوں اور اشخاص کی کارروائیوں کے متعلق زیادہ تر بلکہ تمام تر سی آئی ڈی کی رپورٹوں پر مبنی تھیں۔ ان سرکاری اطلاعات میں متعدد چیزیں ایسی ہیں جو قطعی طور پر خلاف واقعہ ہیں۔ مگر ان کو نہ صرف یہ کہ رپورٹ میں نقل کیاگیا ہے۔ بلکہ اخذ نتائج میں ان سے مدد لی گئی ہے۔ ہم اس کی چند مثالیں یہاں پیش کرتے ہیں۔
۱… رپورٹ میں ص۱۰۹ سے ۱۱۴تک ہوم سیکرٹری پنجاب کا ایک طویل مراسلہ ہمیں ملتا ہے جو ۲۱؍اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ڈپٹی ہوم سیکرٹری وزارت داخلہ پاکستان کے نام بھیجاگیا تھا۔ اس میں دو صریح غلط بیانیاں ہیں۔ پہلی غلط بیانی یہ ہے: ’’جب دوسری پارٹیوں مثلاً جماعت اسلامی، اسلام لیگ اور شیعوں نے دیکھا کہ ختم نبوت کے مسئلے پر عوامی رائے کو جیت لینے میں احرار ان سے بازی لئے جارہے ہیں تو وہ گذشتہ ماہ اگست کے آغاز میں پوری مستعدی کے ساتھ احمدیوں کی مذمت کرنے میں ان کے ساتھ شریک ہوگئے۔ جماعت اسلامی نے اپنے آٹھ مطالبات کے ساتھ اس نویں مطالبے کا بھی اضافہ کر لیا کہ مرزائی ایک الگ اقلیت قرار دئیے جائیں اور سرظفر اﷲ خاں اپنے عہدے سے الگ کئے جائیں۔‘‘
ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ جماعت اسلامی کے نویں مطالبے میں سرظفر اﷲ خاں کی علیحدگی کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ رہے وہ محرکات جو قادیانیت کے خلاف تحریک میں حصہ لینے کے لئے مختلف جماعتوں کی طرف منسوب کئے گئے ہیں تو ان کے متعلق اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ یہ بیورو کریسی کی پست ذہنیت کا ایک معمولی سا نمونہ ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ اس مفروضے پر اپنے خیالات اور احکام کی بنا رکھتے ہیں کہ جو شخص یا گروہ بھی سرکار عالی کے منشاء کے خلاف کچھ کرتا ہے وہ لازماً بدنیتی اور گھٹیا درجے کے خود غرضانہ محرکات ہی کی بناء پر کرتا ہے۔ ایماندارانہ رائے صرف سرکاری دفتروں کے کرسی نشینوں کا اجارہ ہے۔ جو لوگ اپنی خدمات کے صلے میں بڑے بڑے عہدوں پر ترقیاں مارتے ہوں وہ توہیں کمال درجہ نیک نیت اور جنہیں اپنے مشن کی راہ میں قدم قدم پر جان ومال کے نقصانات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ وہ سب کچھ خود غرضی اور بدنیتی کی بناء پر کام کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ سرکاری اطلاعات کا یہ معیار ہماری انتظامیہ کی اونچی سے اونچی منزلوں تک رائج ہے اور ان کی بنیاد پر پارٹیوں اور تحریکوں کے بارے میں بڑے بڑے اہم فیصلے کئے جاتے ہیں اور بڑے بڑے اہم امور میں عملی قدم اٹھائے جاتے ہیں۔