ہنگامے ہوچکے ہیں۔ جن کو دبانے کے لئے اس صوبے کے کئی اضلاع میں مارشل لا جاری کیاگیا تھا۔ مگر اس وقت ان ہنگاموں کی تحقیقات کے لئے بیرونی حکومت نے جو طریق کار اختیار کیا تھا۔ وہ کم ازکم موجودہ ’’قومی حکومت‘‘ کے طریق کار سے تو بدرجہا زیادہ منصفانہ اور قابل اطمینان تھا۔ دونوں طریقوں کی بنیادی خصوصیات کا مقابلہ کر کے دیکھئے۔ بیک نگاہ نمایاں فرق محسوس ہوگا۔
۱… ۱۹۱۹ء میں پنجاب کے ہنگاموں کو محض ایک صوبائی معاملہ نہیں بلکہ مرکزی معاملہ سمجھا گیا تھا۔ کیونکہ ان ہنگاموں کو رفع کرنے کے لئے مرکز نے مداخلت کی تھی۔ اس لئے تحقیقات صوبے کی حکومت نے نہیں بلکہ ہندوستان کی حکومت نے کرائی اور اس طرح صوبے اور مرکز کے تمام حکام کی وہ کارروائیاں زیر بحث آئیں جو انہوں نے ہنگاموں کو رفع کرنے کے لئے کی تھیں۔ مگر ۱۹۵۳ء میں باوجودیکہ اب بھی مرکز کا گہرا تعلق ہنگاموں سے تھا۔ پنجاب کے معاملے کو صرف ایک صوبائی معاملہ سمجھاگیا اور تحقیقات مرکز کی طرف سے نہیں بلکہ صوبے کی حکومت کی طرف سے کرائی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرکزی حکام کی اکثر وبیشتر کارروائیاں سرے سے زیربحث ہی نہ آسکیں۔
۲… ۱۹۱۹ء میں تحقیقات کا دائرہ ان تمام کارروائیوں پر وسیع تھا جو ہنگاموں کو رفع کرنے کے لئے کی گئی تھیں۔ خواہ وہ مارشل لا سے پہلے کی گئی ہوں یا بعد۔ نیز وہ کارروائیاں بجائے خود زیربحث رکھی گئی تھیں۔ نہ کہ محض ان کا کافی ہونا یا نہ ہونا۔ اس طرح دیوانی اور فوجی حکام، دونوں کے تمام افعال زیر بحث آئے اور صرف اس حیثیت سے زیر بحث نہیں آئے کہ وہ ہنگاموں کو رفع کرنے کے لئے کافی تھے یا نہیں۔ بلکہ اس حیثیت سے بھی زیر بحث آئے کہ وہ جائز اور منصفانہ بھی تھے یا نہیں۔ اس تحقیقات کے نتیجے میں فوج اور پولیس اور مجسٹریٹی پر مباحثے ہوئے۔ جنرل ڈائر ملازمت سے الگ کیاگیا اور ان بہت سے لوگوں کو حکومت نے تاوان ادا کئے۔ جنہیں بے جا طریقے سے نقصان پہنچا تھا۔ لیکن ۱۹۵۳ء میں مارشل لا کا نظم ونسق تو سرے سے دائرہ تحقیق سے خارج ہی رکھاگیا اور مارشل لا سے پہلے کے معاملات کی تحقیقات اگر کرائی بھی گئی تو یہ دیکھنے کے لئے نہیں کہ دیوانی حکام کی تدابیر منصفانہ اور جائز تھیں یا نہیں۔ بلکہ صرف یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ ہنگاموں کو دبانے کے لئے کافی تھیں یا نہیں۔ گویا جہاں تک فوج کا تعلق ہے حکومت کی نگاہ میں وہ قانون اور انصاف سے بالاتر ہے۔ جو کچھ بھی وہ کر گذرے اس کے متعلق سرے سے کسی تحقیقات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ رہے دیوانی حکام تو پبلک کے ساتھ ان کے برتاؤ کا صرف یہ پہلو ہی ہماری قومی حکومت کے لئے اہمیت رکھتا ہے کہ وہ کافی سخت تھا یا نہیں۔ جائز وناجائز کا سوال یہاں بھی خارج از بحث ہے۔