آتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو عیسائیوں کے شرک کی کوئی خبر نہ تھی اور جب ہی صحیح ہوسکتا ہے کہ اب حضرت مسیح علیہ السلام زندہ نہ ہوں۔ کیونکہ اگر زندہ ہیں اور دنیا میں آئیں گے۔ جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو عیسائیوں کے کفر وشرک کی ان کو ضرور خبر ہوگی۔ پھر اس سے انکار کیوں کریں گے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’سوال خداوندی جس کا جواب حضرت مسیح علیہ السلام کے ذمے ہے۔ وہ صرف اتنا ہے کہ تو نے لوگوں کو کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا بنالو؟‘‘
جس کے جواب میں حضرت مسیح علیہ السلام مع شے زائد جواب دیں گے کہ: ’’اے اﷲ! تو شرک سے پاک ہے۔ جو بات مجھے لائق نہیں میں وہ کیوں کہتا۔‘‘
اصل سوال کا جواب یہاں تک آگیا۔ اب آگے اس کام پر اپنی بے زاری کا اظہار کرنا ہے۔
گر اس میں حضرت مسیح علیہ السلام کو ان لوگوں کی جنہوں نے جناب والا کی نسبت یہ افتراء کیا تھا۔ سفارش بھی کرنی ہے۔ اس لئے دونوں مطلبوں کو حاصل کرنے کے لئے اپنی بے زاری کا بھی اظہار کیا کہ جب تک میں ان میں رہا ان کا نگہبان تھا۔ جس سے کسی قدر استحقاق شفاعت ثابت ہوتا ہے اور جب تو نے مجھے فوت کر لیا تو تو ہی ہر چیزپر نگہبان رہا ہے۔ جیسے وہ ہیں تو جانتا ہے۔ اس سے آگے ان کی ضمناً سفارش بھی کی کہ اگر تو ان کو عذاب کرے، تو تیرے بندے ہیں۔ تجھے کوئی روک نہیں سکتا۔ اگر تو ان کو بخش دے تو ’’ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم (المائدہ:۱۱۸)‘‘ {بڑا غالب، بڑا حکمت والا ہے۔ کوئی نہیں جو تیری اس بخشش کو خلاف مصلحت سمجھے۔}
اب بتلائیے! اگر مسیح علیہ السلام خود ہی ان کی اس نالائقی کا اعتراف کر لیتے تو ان کی سفارش کیوں کر کرتے۔ حالانکہ ان کے شرک کرنے نہ کرنے سے سوال ہی نہ تھا۔ بلکہ سوال صرف اس سے تھا کہ تو نے ان سے کہا تھا کہ مجھے خدا بنالو۔ پس جب کہ سوال ہی اس سے نہیں اور اس کا اقرار ان کی سفارش میں خلل انداز بھی ہے تو مسیح کو کیا غرض کہ وہ اس کا اقرار کریں کہ یہ مشرک تھے۔ ہاں کمال یہ ہے کہ انکار بھی نہیں کیا۔ کس طرح کرتے۔ جب کہ جان چکے تھے کہ عیسائیوں نے بے شک میری نسبت یہ افتراء کیا ہوا ہے۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ مسیح علیہ السلام کے اقرار عدم اقرار پر کوئی بات موقف نہیں۔ معاملہ خدا کی غیب دانی سے ہے۔ جس کو یہ بھی خبر ہے کہ انہوں