خلاف کچھ کر سکے۔ ہذا من فضل ربی!
اب مرزائیوں کو بھی پورے طور پر یقین ہوچکا تھا کہ پردہ زنگاری کے پیچھے سب پوسٹ ماسٹر کا ہاتھ ہے۔ قصر خلافت میں مشورے شروع ہوئے کہ سب پوسٹ ماسٹر کو قادیان سے تبدیل کرایا جاوے۔ چنانچہ یہ طے ہوا کہ پوسٹ ماسٹر جنرل کی شملہ سے واپسی پر ایک وفد اس کے پاس جاوے۔
الٹے بانس بریلی کو
اس دوران میں نانا جان جو ضرورت سے زیادہ حریص تھے۔ یہ خیال پیدا ہوا کہ مولوی محمد احسن سے جو کام لینا تھا وہ تو لے لیا۔ اب مرزامحمود قادیانی کی خلافت کو کسی قسم کا خطرہ بھی نہ تھا۔ کیونکہ اسے ایک عرصہ گذر چکا تھا۔ چنانچہ انہوں نے مولوی صاحب سے اپنی رقم کا تقاضا کیا اور ایک لمبی چوڑی چٹھی لکھی کہ مولوی صاحب آپ نے جو روپیہ اپنے صاحبزادہ محمد یعقوب کی شادی پر بطور قرض حسنہ لیا، واپس کریں۔ مولوی صاحب اپنی دانست میں اس کا معاوضہ اس سے زیادہ ادا کر چکے تھے۔ مرزامحمود قادیانی کو تخت نشین کرنا ان ہی کی کرامت تھی۔ انہوں نے نانا جان کو بہت سمجھایا کہ اب اس تقاضا کو چھوڑ دیں کہ میں کئی گنا زیادہ حق خدمت ادا کر چکا ہوں۔ نانا جان نے نہ ماننا تھا نہ مانے اور الٹی سیدھی سنانا شروع کیں۔ مولوی صاحب نے بھی تنگ آکر اخبار پیغام صلح اور دیگر اخبارات کا سہارا لے کر مرزاقادیانی کی قلعی کھولنا شروع کی اور مرزاقادیانی کے مبلغ علم کا سب کچا چٹھا لکھ مارا۔ جس پر انہیں منافق ومرتد کے خطاب ملنے شروع ہو گئے۔
کچھ عرصہ بعد پوسٹ ماسٹر جنرل شملہ سے واپس آئے۔ مرزائی اکابرین کا وفد ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور گورنمنٹ برطانیہ سے اپنی وفاداری اور خدمات کا تذکرہ کر کے میرے قادیان سے تبادلہ کا مطالبہ کیا۔ پوسٹ ماسٹر جنرل کے لئے یہ معمولی بات تھی۔ اس نے سپرنٹنڈنٹ ڈاکخانہ جات کو فوراً لکھ دیا کہ عبدالمجید پوسٹ ماسٹر کا تبادلہ قادیان سے کر دیا جاوے۔ چنانچہ میری تبدیلی قادیان سے شکر گڑھ کر دی گئی۔ مجھے اس تبادلہ کا ذرا بھی احساس نہ تھا۔ کیونکہ اﷲتعالیٰ نے مجھ سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا۔
ملازمت میں تبدیلیاں ہوتی ہی رہتی ہیں۔ چنانچہ گورداسپور کا ڈپٹی کمشنر بھی تبدیل ہوگیا، یا کرادیا گیا۔ دوسرے ڈپٹی کمشنر سے جو اس کی جگہ آیا۔ مرزائیوں نے اپنا اثر ورسوخ قائم کر کے یہ احکام جاری کروالئے۔
Anti Ahmadia meeting should not be held in Qadian in future