جواب دعویٰ سے کوئی روک نہیں سکتا اور اگر دعویٰ باطل ہو جاوے تو مقدمہ خارج ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی نے دعویٰ نبوت کر کے ہمیں چیلنج دیا۔ اب ہمیں اس کی تردید میں دلائل پیش کرنے کا پورا حق پہنچتا ہے۔ اس بات سے نہ ہی تو ہمیں اخلاق روک سکتا ہے اور نہ ہی قانون۔ مگر مرزائی تھے کہ واویلا کرر ہے تھے۔ آخر مجسٹریٹ کو مجبوراً یہ کہنا پڑا کہ اگر آپ نے اسی طرح شور مچائے رکھا تو مجھ کو سختی کرنا پڑے گی۔ مولوی صاحب نے محمدی بیگم کے نکاح کو کچھ ایسے پیرایہ میں بیان کیا کہ سننے والوں کے پیٹ میں بل پڑ جاتے تھے۔ خیر جلسہ بخیر وخوبی ختم ہوا۔ دوران جلسہ پندرہ بیس دیہاتی مرزائی تائب ہوئے اور جن کے دلوں میں کچھ شبہات تھے۔ انہوں نے بھی توبہ کی۔ اگرچہ میں ملازمت کے باعث منظر عام پر نہ آیا تھا اور نہ آسکتا تھا۔ مگر ؎
کجا ماندآں رازے کزد سازند محفلہا
ہر جگہ یہ خبر پھیل گئی کہ اس جلسہ کا بانی یہاں کا پوسٹ ماسٹر ہے۔ باہر سے احباب کے مبارک باد کے خطوط آنے شروع ہوگئے۔ مگر ان تمام خطوط میں ایک خط ایسا تھا جس کو میں عمر بھر نہیں بھول سکتا۔ یہ خط جناب حضرت مولوی محمد علی صاحب سجادہ نشین مونگیر شریف کا تھا۔ جنہوں نے مرزاقادیانی کے متعلق چند رسالے بھی شائع کئے تھے۔ اصلی خط تو دوران تقسیم میں بٹالہ ہی رہ گیا۔ مگر اس کا مضمون قریب قریب یہ تھا۔
محبی! السلام وعلیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ،
مجھے یہ معلوم کر کے بہت خوشی حاصل ہوئی کہ آپ نے قادیان میں مسلمانوں کے جلسہ کی بنیاد رکھی ہے۔ خداوند کریم آپ کو اس کا اجر خیردے۔ اگرچہ میں اب ضعیف ہوں۔ مگر جب مرزاقادیانی کے خلاف قلم اٹھاتا ہوں تو اپنے آپ کو جوان پاتاہوں۔ امرتسر میں میرے دوست مولوی نور احمد صاحب اور مولوی ثناء اﷲ صاحب موجود ہیں۔ انہیں میری جانب سے سلام عرض کریں اور وقت بے وقت اگر کسی قسم کی امداد کی ضرورت ہو تو انہیں کہہ دیا کریں۔ یہ خط میرے لئے باعث اطمینان وفخر تھا کہ ایسی قابل قدر ہستی نے جس پر ہر دو مولوی صاحبان کو بھی ناز تھا۔ احقر کو یاد فرمایا۔
مجھے اس بات کا یقین ہے کہ اس تمام تگ ودو کی پشت پر میرے آقا مرشدی حضور حضرت خواجہ الہٰہ بخش صاحب تونسویؒ کی روحانی امداد اور جناب پیر جماعت علی شاہ صاحب علی پوریؒ اور دیگر بزرگان دین کی دعائیں تھیں۔ ورنہ میرے جیسے کم علم، بے بضاعت اور ملازمت میں جکڑے ہوئے شخص کی اتنی ہمت وجرأت کب تھی کہ سرکار انگلشیہ کے خود کاشتہ پودے کے