.
کہ آئندہ کے لئے قادیان میں غیر احمدیوں کا کوئی جلسہ نہ ہو۔ چونکہ اب قادیان کے مسلمانوں میں خاصی بیداری پیدا ہوچکی تھی اور میرے امرتسر بٹالہ اور دیگر شہروں کے احباب کو بھی اس معاملہ سے خاص دلچسپی تھی۔ انہوں نے اعلیٰ حکام سے مل کر یہ احکام منسوخ کرا دئیے۔ چنانچہ دو ایک دفعہ ایسا ہی ہوا کہ مرزائی اپنے اثر ورسوخ سے جلسہ کو بند کرادیتے اور فریق ثانی اسے منسوخ کرا دیتا۔ آخر دو تین جلسے اس کے بعد نہایت دھوم دھام سے ہوئے۔ جن میں دو ایک میں مرزائیوں نے منظم فساد بھی کئے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ مجلس احرار نے اپنے قدم وہاں جمالئے۔ ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔ ایک دو مستقل مبلغ مقرر کر دئیے۔ پھر جو اجلاس وہاں ہوئے۔ ان کے روح رواں سید عطاء اﷲ شاہ صاحب بخاری تھے۔ میں نے اﷲ کا شکر کیا کہ ایک بخاری نے جلسہ کی بنیاد رکھی اور دوسرے نے اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی۔
مجھے مرزائی صاحبان سے کوئی ذاتی عداوت نہ تھی اور نہ ہے۔ میرا قادیان جا کر یہ خیال پختہ ہوگیا کہ میرے جو عزیز جماعت مرزائیہ میں داخل ہوئے۔ ان کو اپنے دین سے کچھ واقفیت نہ تھی۔ انگریزی سکولوں میں دینی تعلیم مفقود تھی اور ہے۔ طالب علمی کا زمانہ گزار کر ملازم ہونے پر بھی یہ لوگ علم دین سے بے بہرہ رہے اور مرزاقادیانی کی تعلیم ان نوجوانوں کی مزاج کے مطابق تھی۔ مثلاً یہ کہ آسمان صرف حد نگاہ ہے۔ جب یہ کوئی چیز ہی نہیں تو پھر انسان اس میں کس طرح رہ سکتا ہے۔ نیز لفظ متوفی سے انہوں نے اس بے علم طبقہ کو خوب دھوکا دیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں۔ وہ تو آنے سے رہے۔ جس مسیح کے متعلق آنے کا وعدہ تھا۔ وہ میں ہوں۔
اینک منم کہ حسب بشارات آمدم
عیسیٰ کہ کجاتا بہ نہد پابہ ممبرم
(ازالہ اوہام ص۱۵۸، خزائن ج۳ ص۱۸۰)
نوجوان اس دام تزویر میں پھنس کر صراط مستقیم سے بھٹک گئے۔ پھر انہیں اپنے خود ساختہ دین کے رنگ میں پوری طرح سے رنگ دیا۔
پہلے جو پیغمبر آیا کرتے تھے۔ وہ اس زمانہ کے فاسد وباطل خیالات وعقائد کی مخالفت کر کے اور تکلیفیں برداشت کر کے لوگوں کو راہ راست پر لاتے۔ مگر جناب مرزاقادیانی نے زمانہ کی ہوا کا رخ دیکھا اور اس کے مطابق اپنی تعلیم کو جاری کیا۔ تاکہ بڑے بڑے سرکاری عہدیداروں پر قابو پایا جاسکے اور وہ حصول زر کا باعث بن سکیں۔ چنانچہ قادیان میں بہشتی مقبرہ کہ اس میں دفن ہونے والے ہر شخص سے اس کی جائیداد کا دسواں حصہ وصول کرنا اور تنخواہ سے