کہ کلمۂ حق کسی کے کان میں نہ پڑ جائے۔ اپنے لوگوں کو جلسہ میں آنے سے روکنا شروع کر دیا۔ سکول کے مسلمان طلباء کو جلسہ میں شریک نہ ہونے دیا۔ حالانکہ تعلیم الاسلام ہائی سکول میں غیرحاضری کا کوئی جرمانہ نہ ہوتا تھا۔ مگر ایام جلسہ میں اٹھ آنہ فی غیرحاضری جرمانہ رکھ دیا۔ سقوں اور خاکروبوں کو مجبور کیا کہ وہ جلسہ کا کام نہ کریں۔ مگر ؎
دشمن چہ کند چو مہربان باشد دوست
جو اﷲتعالیٰ کو منظور ہوتا ہے ہو کے ہی رہتا ہے۔ قادیان کے مسلمانوں نے سب کام بڑی مستعدی سے کئے۔ تیسرے روز علی الصبح مولوی ثناء اﷲ صاحب بھی تشریف لے آئے۔ مرزاقادیانی کے مباہلہ وغیرہ کی وجہ سے لوگ ان کو دیکھنے اور ان کی تقریر سننے کے بڑے شائق تھے۔ یہ خبر ہوا کے ساتھ قادیان کے اطراف میں پھیل گئی۔ پھر تو جلسہ گاہ میں اس قدر ہجوم تھا کہ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ بعد دوپہر مولوی صاحب نے اپنے خاص انداز میں تقریر شروع کی اور مرزاقادیانی کا الہام پیش کیا کہ میں نے دیکھا کہ زمین اور آسمان میں نے بنایا ہے۔ ان دنوں قادیان میں ریل نہیں جاتی تھی اور بٹالہ سے قادیان تک کچی سڑک تھی۔ قادیان سے میل ڈیڑھ میل کا ٹکڑا نہایت خستہ حالت میں تھا۔ جس کا نام ہی پہلو توڑ سڑک رکھا ہوا تھا کہ تین روز تک پسلیاں ہی درد کرتی رہتی تھیں اور واقف کار لوگ اکثر یہ حصہ پیدل ہی طے کیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب نے یہ الہام پیش کر کے فرمایا کہ مجھے یہ الہام پڑھ کر تو بہت خوشی ہوئی کہ میرے ایک مہربان نے آسمان اور زمین بنائے۔ مگر یہ دیکھ کر بہت رنج ہوا کہ قادیان کی سڑک نہ بنائی۔ شاید انہیں معلوم تھا کہ مولوی ثناء اﷲ اس سڑک پر سفر کرے گا۔ اس لئے دانستہ ہی اسے چھوڑ دیا ہو۔ پھر مرزامحمود کے سفر ہندوستان سے واپسی پر اور دریائے گنگا کے پل عبور کرنے پر جو مضمون الفضل نے شائع کیا تھا کہ گنگا نے مرزامحمود کے پاؤں چومے۔ لہریں ان پر نثار ہوتی تھیں۔ اس پر بڑی پر لطف تنقید کی۔ پھر نکاح آسمانی اور محمدی بیگم کا قصہ شروع کیا۔ مرزائی صاحبان حسب عادت ذرا ذرا سی بات پر مجسٹریٹ کو توجہ دلاتے کہ مولوی صاحب کو یہ بات کرنے سے روکا جاوے۔ اس سے ہمارے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ مگر مولوی صاحب جو ان کے نبی سے دال روٹی بانٹتے تھے۔ بھلا ان کو خاطر میں کب لاتے۔ انہوں نے مجسٹریٹ کی طرف مخاطب ہوکر کہا کہ یہ دین کا معاملہ ہے۔ مرزاقادیانی نے مسلمانوں کے عقیدہ کے خلاف دعویٰ کو پرکھ کر دیکھیں اس وقت جلسہ کے صدر میرے ماموں جناب شیخ محمد صاحب وکیل گورداسپور تھے۔ ان کو مخاطب کر کے مولوی صاحب نے کہا۔ جب عدالت میں کوئی دعویٰ کرتا ہے تو کیا فریق ثانی کو قانون یہ حق نہیں دیتا کہ جواب دعویٰ پیش کرے۔ پھر ہمیں جواب