زیادہ تشویش ہوئی۔ جلسہ کا دن قریب آرہا تھا۔ دوبارہ ان کا وفد ڈپٹی کمشنر سے ملا اور اسے بتایا کہ یہ باہر کے لوگ محض فساد کرنے کی غرض سے آرہے ہیں وغیرہ وغیرہ! ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ میں نے سپرنٹنڈنٹ پولیس کو حکم دے دیا ہے کہ وہ پولیس کی کافی تعداد وہاں بھیج دے۔ اگر اس پر بھی تمہیں خطرہ ہے تو ایڈیشنل مجسٹریٹ کو بھی بھیج دوں گا اور اگر وقت ملا تو شاید میں خود بھی آؤں۔ مرزائی اپنا سامنہ لے کر واپس آگئے۔ یہاں آکر انہوں نے جلسہ کو ناکام بنانے کے لئے باقاعدہ پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ کیونکہ انہیں خطرہ تھا کہ قرب وجوار کے مسلمانوں پر جو انہوں نے مختلف قسم کے دباؤ ڈال رکھے تھے۔ یہ سب لوگ ان سے باغی نہ ہو جائیں۔
جلسہ سے چند روز پہلے قادیان کے ہندوؤں اور سکھوں نے مہمانوں کے لئے اپنے رہائشی مکان خالی کر دئیے اور خود دو دو تین تین کنبوں نے مل کر گذارا کیا۔ کیونکہ ان پر بھی مرزائیوں نے بہت رعب ڈال رکھا تھا۔ سکھوں نے قادیان کے قصبہ کے قریب ہی اپنی جگہ پر جلسہ کا انتظام کیا اور سٹیج وغیرہ بھی انہوں نے خود بنائی۔ ہمیں بٹالہ سے دریوں اور شامیانوں کا بندوبست کرنا پڑا۔ خدا خدا کر کے جلسہ کا دن آیا۔ تاریخ مقررہ سے ایک روز قبل میرے استاد حضرت مولانا نور احمد صاحب اپنے دوست میاں نظام الدین صاحب میونسپل امرتسر اور اپنے چند شاگردوں کے ساتھ تشریف لے آئے۔ مولوی عبدالعزیز صاحب گورداسپوری اسی روز آگئے۔ دوسرے روز علی الصبح میاں نظام الدین صاحب کی صدارت میں جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ قادیانیوں کا اور تو کوئی جادو نہ چل سکا۔ جلسہ کے ایک روز پہلے انہوں نے قادیان کے اطراف میں اپنے آدمی دوڑا دئیے اور مشہور کر دیا کہ جلسہ نہیں ہوگا۔ گورنمنٹ نے جلسہ کو روک دیا ہے۔ اس لئے حاضرین کی تعداد بہت کم تھی۔ جناب مولانا نور احمد کے ارشاد پر مولوی عبدالعزیز صاحب نے تلاوت قرآن کریم کے بعد اپنی تقریر شروع کی۔ مرزائی مذاق اڑاتے تھے کہ یہ جلسہ نہیں جلسی ہے۔ مگر جوں جوں قرب وجوار کے مسلمانوں کوعلم ہوتا گیا کہ جلسہ ہو رہا ہے۔ وہ محض مرزائیوں کی شرارت تھی تو لوگ جوق درجوق آنے شروع ہوگئے۔ دوپہر کو لاہور سے جناب مولانا احمد علی صاحب، ماسٹر پیر بخش صاحب اور تین چار اور عالم جو ان کے دوست تھے آگئے۔ ہا ریوال سے مولوی نواب دین صاحب، امرتسر سے مولوی ابوتراب صاحب۔ غرض کہ علماء کی آمد آمد شروع ہوگئی۔ جلسہ میں اس قدر رونق ہوگئی جس کی ہمیں بھی توقع نہ تھی۔ دور دور سے لوگوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ مجسٹریٹ سری کرشن، انسپکٹر وسب انسپکٹر پولیس معہ کافی عملہ کے موجود تھے۔ مرزائیوں نے کئی دفعہ جلسہ میں گڑ بڑ ڈالی اور فساد کی کوشش کی۔ مگر وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ آخر انہوں نے اس خوف سے