احمد علی صاحب سے نہایت خوش عقیدتی سے پیش آئے۔ مولوی صاحب نے تمام حال بیان کیا کہ اسے اپنے اخبار میں شائع کردیں۔ مولانا نے فرمایا کہ مجھے اس کے متعلق کوئی عذر نہیں۔ مگر میرا اخبار زمیندار چند دنوں سے بند ہے۔ اس کی جگہ میں صبح کا ستارہ نکال رہا ہوں اور وہ بھی سینسر ہوتا ہے۔ محکمہ سنسر میں چند مرزائی بھی ہیں۔ میں مضمون دے دوں گا۔ اگر کسی نے کاٹ نہ دیا۔ بہرحال میں وہاں سے واپس قادیان آیا۔ چند روز کے بعد مولانا کا مضمون جلسہ کے متعلق اخبار ستارہ صبح میں شائع ہوگیا۔ جس کا جواب اخبار الفضل قادیان میں بدیں مضمون شائع ہوا کہ ہم کو اخبار ستارہ صبح میں قادیان میں جلسہ ہونے اور یہاں علمائے کرام کے تشریف لانے کا پڑھ کر بہت خوشی ہوئی کہ ہم تبلیغ کے لئے اپنے آدمی دوردراز کے ملکوں میں بھیجتے ہیں۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہو گی کہ علمائے کرام یہاں آویں اور ہم ان سے تبادلہ خیالات کریں۔ مگر ہم نے قادیان کی گلی گلی اور کوچہ کوچہ چھان مارا ہے کہ وہ ہستیاں ہمیں نظر آویں۔ جو قادیان میں جلسہ کرا رہی ہیں۔ مگر شاید وہ ابھی عالم بالا میں پرورش پارہی ہیں۔ یہ مضمون ہمارے لوگوں کی نظر سے گزارا۔ مگر ہم خاموش تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے اشتہارات جگہ جگہ پہنچ گئے اور قادیان کے بازاروں میں چسپاں کر دئیے گئے۔ اشتہارات دیکھ کر مرزائی صاحبان کے اوسان خطا ہوگئے۔ خصوصاً جب انہوں نے مولانا ثناء اﷲ صاحب مولانا محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی اور ستارہ ہند مولانا مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے اسمائے گرامی دیکھے۔ اب انہیں فکر لاحق ہوئی کہ کسی طرح سے یہ جلسہ بند کرادیا جائے۔ چنانچہ انہوں نے مجلس شوریٰ بلوائی۔ جس میں یہ طے ہوا کہ چند معزز مرزائی ڈپٹی کمشنر کو ملیں اور اسے اپنی جماعت کی سرکار انگلشیہ سے وفاداری کے احسانات جتاکر اسے بتائیں کہ اس جلسہ میں ہر فقہ کے علماء آرہے ہیں۔ اس لئے خطرہ ہے کہ قادیان میں کسی قسم کا ہنگامہ نہ ہو جائے۔ چنانچہ مرزائیوں کا ایک وفد گورداسپور پہنچا۔ ڈپٹی کمشنر نے اس معاملہ پر غور کرنے کا وعدہ کیا۔ ہمارے آدمیوں کو بھی علم ہوگیا۔ وہ لوگ بھی گورداسپور گئے۔ ڈپٹی کمشنر نیک دل اور پادری منش انگریز تھا۔ اس سے ملے اور قادیان کے حالات سنا کر بتایا کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں۔ مگر مرزاقادیانی اپنے آپ کو مسیح موعود کہتے ہیں اورکہتے ہیں کہ آسمان پر کوئی مسیح نہیں وہ مسیح میں ہی ہوں۔ ڈپٹی کمشنر نے حیران ہوکر پوچھا کہ کیا واقعی مرزا قادیانی اپنے آپ کو مسیح کہتا ہے۔ ہم نے اس کی کتابوں کے حوالے دئیے اور کہا کہ ہم یہی اپنے علماء سے سننا چاہتے ہیں کہ کیا واقعی مرزاقادیانی مسیح ہیں یا جسے ہم اور آپ مانتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے بڑے وثوق سے کہا کہ تم جاکر جلسہ کرو تمہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ قادیانیوں کو جب یہ معلوم ہوا تو ان کو اور