کچھ بات چیت کروں۔ مگر مجھے مرزاقادیانی نے روبرو گفتگو کا موقعہ نہ دیا اور صرف دو ایک باتیں تحریری دریافت کرنے کی اجازت دی اور میں وہاں سے بے نیل ومرام واپس لوٹا۔ چونکہ میں نے مرزاقادیانی سے مباہلہ بھی کیا تھا۔ جس کی وجہ سے اب تک مرزائیوں سے میری چھیڑ چھاڑ ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ وہ مجھ پر حملہ نہ کریں یا کھانے میں کسی قسم کا زہر نہ ملادیں۔ میں نے ان کی تسلی کی کہ اس بات کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ آپ کے لئے کھانا میں اپنے گھر سے پکواؤں گا۔ بلکہ خود آپ کے ساتھ کھایا بھی کروں گا۔ امرتسر سے فارغ ہوکر اگلے دن میں لاہور گیا۔ میرے بزرگ سید احمد علی شاہ صاحب جن کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا ہے۔ ان دنوں لاہور اسلامیہ کالج کے عربی کے پروفیسر اور بادشاہی مسجد کے خطیب بھی تھے۔ ان سے سارا معاملہ بیان کیا۔ آپ بہت خوش ہوئے۔ فرمایا کہ اس بہانہ سے مجھے بہشتی مقبرہ دیکھنے کا موقع بھی مل جائے گا اور بچوں کو بھی دیکھ آؤں گا۔ وہاں سے فارغ ہوکر میں اپنے مہربان (بابو) پیر بخش صاحب پوسٹل پنشنر سے ملنے چلا گیا۔ آپ اس وقت اپنے ماہوار رسالہ (تائید الاسلام) جو قادیانیوں ہی کی ترید کے متعلق ہوتا تھا۔ تحریر کرنے میں مصروف تھے۔ مل کر بہت خوش ہوئے اور قادیان آنے کا وعدہ کیا اور مجھے اپنا ایک رسالہ بھی دیا۔ جس میں مرزاقادیانی کے نکاح آسمانی کا سارا پول کھولا ہوا تھا۔ اس میں مرزاقادیانی کے تمام دعاوی جو محمدی بیگم کے رشتہ داروں کو تحریر کئے تھے کہ اگر محمدی بیگم کا مجھ سے نکاح کر دو گے تو تم پر یہ یہ برکات نازل ہوںگی اور اگر انکار کرو گے تو عذاب الٰہی میں گرفتار ہو گے اور اپنے فرزند سلطان احمد (جو پہلی بیوی سے تھے) اس کے نام خطوط تھے کہ اگر محمدی بیگم کے رشتہ دار محمدی بیگم کا مجھ سے نکاح نہ کریں تو تم اپنی بیوی کو (جو محمدی بیگم کی قریبی رشتہ دار تھی) طلاق دے دو۔ ورنہ تمہیں عاق کر دیا جاوے گا اور بھی بہت سے ایسے راز ہائے درون پردہ کا انکشاف کیا ہوا تھا۔ بہرکیف وہاں سے فارغ ہوکر میں اور محترمی مولانا احمد علی صاحب بعد دوپہر قاضی حبیب اﷲ صاحب خوش نویس کے ہاں پہنچے۔ قاضی صاحب نہایت خوش مذاق آدمی تھے۔ وہاں ان کے ہاں ہی جلسہ کی تقریخ مقرر کر کے اشتہارات کی لکھائی چھپوائی اور جہاں جہاں اشتہارات ارسال کرنے تھے۔ سب انتظامات مکمل کر کے ہم واپس گھر آئے۔ دوسرے روز ہم مولانا ظفر علی خاں صاحب کے ہاں پہنچے اندر اطلاع کی گئی۔ ملازم نے ہم کو کرسی پر بٹھا دیا۔ چند منٹ بعد مولانا تشریف لائے۔ ان دنوں مولانا کی عجب شان تھی۔ نیلے رنگ کی سرج کا سوٹ زیب تن تھا۔ کالر، ٹائی، ڈاسن کا بوٹ، بل دار مونچھیں، مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا۔ کیونکہ میرے ذہن میں مولانا کے متعلق مولویوں کا سا نقشہ تھا کہ وہ جبہ وستار سے آراستہ ہوںگے۔ بہرحال مولانا حضرت مولوی