سے بہت گہرے تھے۔ ان کی وجہ سے حضرت صاحب مجھ سے خاص انس رکھتے تھے۔ بلکہ جب کبھی کہیں دعوت پر تشریف لے جاتے تو اپنے خلیفہ خیرشاہ صاحب کو بھیج کر مجھے بلوا لیا کرتے تھے۔ غرضیکہ ان کی گورداسپور میں تشریف آوری کا سن کر مجھے یک گونہ اطمینان ہوگیا۔ نماز عصر کا وقت تھا۔ آپ مسجد حجامان میں تشریف فرما تھے۔ میں اور میرے ساتھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ مجھے عرصہ کے بعد دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور پوچھا کہ آج کل کہاں ہو۔ میں نے عرض کیا کہ قادیان میں، مسکرا کر فرمایا کہیں مرزائی تو نہیں ہوگئے۔ میں نے عرض کی ابھی سوچ رہا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے ابھی اتریں گے اور وہاں عیسیٰ موجود ہے۔ نقد کو چھوڑ ادھار کون لے؟ خیر میں نے ان سے عرض حال کی۔ آپ نے اپنی حاضری کی تو معذرت فرمائی اور اسی وقت اپنے چند خلفاء کو تحریر کر دیا کہ جس وقت قادیان سے انجمن حمایت الاسلام کی دعوت پہنچے وہ ضرور وہاں پہنچیں اور جلسہ کی کامیابی کے لئے دعاء فرمائی۔ وہاں سے ہم حضرت مولانا سراج الحق صاحب کی قیام گاہ پر گئے۔ مولانا سراج الحق صاحب سے بھی میرے نیازمندانہ تعلقات تھے۔ جب آپ کے والد صاحب بٹالہ میں تحصیلدار تھے تو آپ کے چھوٹے بھائی اور میں ہم جماعت تھے اور ہم دونوں اکثر ان کے حلقہ ذکرواذکار میں شامل ہوتے تھے۔ اس لئے وہ مجھے بھی اپنے بھائی جیسا ہی سمجھتے تھے۔ چنانچہ آپ نے بھی مولوی حامد علی صاحب گمٹالوی اور ایک مولوی صاحب جو وہاں موجود تھے۔ انہیں تاکید فرمائی اور مولوی نواب دین صاحب (ستکوہی) کو کہلوا بھیجا کہ قادیان سے اطلاع آنے پر وہ شامل جلسہ ہوں۔ گورداسپور سے فارغ ہوکر میں امرتسر پہنچا اور اپنے محسن ومربی استاذی حاجی الحرمین الشریفین جناب مولانا مولوی نوراحمد صاحب نور اﷲ مرقدہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت مولانا قادیان میں جلسہ کا سن کر بہت خوش ہوئے اور فرمایا اﷲ تعالیٰ یہ نیک کام تم سے لینا چاہتے ہیں۔ میں نے کچھ رقم بطور کرایہ پیش کی۔ آپ نے فرمایا عزیز تمہیں معلوم ہے کہ میں خود صاحب زکوٰۃ ہوں۔ میں صرف اس نیت سے وہاں جانا چاہتا ہوں کہ شاید میرے وعظ ونصیحت سے کوئی راہ راست پر آجاوے تو میری بخشش کا باعث ہو۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اب مولوی ثناء اﷲ صاحب (امرتسری) کے پاس جاؤ۔ میرا سلام عرض کرو اور کہنا کہ وہ اس موقعہ پر ضرور قادیان پہنچیں۔ کیونکہ انہیں مرزاقادیانی کی تصانیف پر مکمل عبور ہے۔ مولوی صاحب میرے بھی مہربان تھے۔میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت مولانا کا پیغام بھی دیا۔ مولوی صاحب فرمانے لگے کہ میں تو عرصہ سے اس بات کا خواہاں ہوں کہ قادیان جاکر تقریر کروں۔ عرصہ ہوا بٹالہ سے ایک پولیس کا سپاہی ساتھ لے کر وہاں گیا تھا کہ مرزاقادیانی سے