میں پوشیدہ نہیں، ڈنکے کی چوٹ اعلان کرتا ہوں کہ کیا فرقہ مرزائیہ میں کوئی ہے جو
۱…
ابن عباسؓ سے بسند صحیح روایت دربارہ مرچکنے مسیح علیہ السلام کے دکھلاوے؟
۲…
مدیر پیغام صلح اور ان کے ہم نواؤ! کیا تم میں کوئی موجود ہے جو مرد میدان بن کر بسند صحیح حضرت ابن عباسؓ سے تصریح لائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ نہیں اٹھائے گئے؟
۳…
لاہوری وربوی مرزائیو! کیا تم میں سے کوئی علم وفضیلت کا مدعی ابن عباسؓ سے بسند صحیح ثابت کر سکتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام بار ثانی نزول فرمانہیں ہوںگے۔
اگر یہ امور ثابت نہ کر سکو اور یقینا ہرگز نہیں ثابت کر سکو گے تو سنو! اس خبرامت جلیل القدر صحابی پر ناحق افتراء نہ باندھو اور اس جرأت عظیمہ سے باز رہ کر عقائد باطلہ، مبتدعہ سے جلد از جلد توبہ کر لو۔
مدیر پیغام صلح وفات مسیح ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’قرآن کریم تو صریح الفاظ میں وفات مسیح کا اعلان اور مسیح ابن مریم کے دوبارہ آنے کا انکار کر رہا ہے۔ چنانچہ قیامت کے دن عیسیٰ علیہ السلام سے سوال کیا جائے گا کہ کیا تونے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو خدا کے سوا معبود بنالو تو صاف لفظوں میں اس سے انکار کرتے ہوئے یہ فرمائیں گے کہ میں نے ان سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا اور جب تک میں ان میں رہا۔ ان کا نگران رہا۔ پھر جب تو نے وفات دے دی تو تو ہی ان کا نگہبان تھا۔ اس سے ظاہر ہے کہ اگر مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو وہ ہرگز جواب یہ نہ دیتے۔‘‘ (پیغام صلح مورخہ یکم؍فروری ۱۹۶۹ئ)
مدیر پیغام صلح مانتے ہیں کہ یہ سوال وجواب قیامت کے دن ہوگا تو میں کہتا ہوں۔ ہاں بے شک جس وقت یعنی بروز قیامت حضرت مسیح علیہ السلام یہ بات کہیں گے۔ اس وقت سے پہلے فوت ہو چکے ہوںگے۔ ہم بھی تو اس امر کے قائل ہیں کہ قرب قیامت میں دنیا میں تشریف لاکر بنی آدم کی طرح فوت ہوںگے۔
اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ اس وقت بھی مسیح فوت شدہ ہیں۔ ہاں اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ: ’’سوال خداوندی کا مطلب تو یہ تھا کہ تو نے ان کو اپنی الوہیت کی طرف کیوں بلایا تھا؟‘‘ جس کا جواب مسیح علیہ السلام نے یہ دیا اور پھر اس پر ہی بس نہ کی بلکہ یہ بھی کہا کہ: ’’جب تک میں ان میں تھا ان کا نگران حال تھا اور جب تو نے مجھے فوت کر لیا تو تو ہی نگہبان تھا۔‘‘ اس سے سمجھ میں