مطلب کی بات کے کوئی اور بات ہی نہیں کی۔ مرزامحمود ایک بادشاہ کی سی زندگی بسر کر رہے تھے۔ صرف بعد دوپہر مسجد میں درس دینے آتے اس میں قصبہ کی جماعت کے آدمی مدرسہ دینیات اور ہائی سکول کے طلباء شامل ہوتے۔
سکول کے طلباء اکثر ایک ہندو سے مٹھائی وغیرہ خریدا کرتے تھے اور کئی ایک کا ادھار بھی چلتا تھا۔ چنانچہ ایک روز حلوائی نے کسی طالب علم سے اپنے ادھار کا تقاضا کیا۔ طالب علم بھی سختی سے پیش آیا۔ جانبین کے حمایتی اکٹھے ہوگئے۔ آپس میں لڑائی ہوئی۔ جس سے دونوں طرف کے چند آدمی زخمی ہوئے۔ اطلاع میاں صاحب تک پہنچی۔ میاں صاحب نے فوراً حکم جاری فرمادیا کہ کوئی مرزائی کسی غیرمرزائی سے سودانہ خریدے اور اگر کوئی سودا خریدتا ہوا پایا گیا تو اسے پانچ روپیہ جرمانہ کیا جاوے گا۔ اب چونکہ ان کی جماعت کی اتنی دوکانیں نہ تھیں کہ ان کی ضروریات پوری ہوسکتیں اور ادھر میاں صاحب کے نادر شاہی حکم سے سرتابی کی جرأت نہ تھی۔ لہٰذا وہ چوری چھپے اپنے غیرمرزائی دوستوں کے ذریعے سے اشیاء منگوا کر ضرورت پوری کرتے۔ میرے اکثر دوست میرے پاس آتے اور میں انہیں بازار سے اشیاء منگوا دیتا۔
دفتر محاسب میں چٹھی رساں کو زدوکوب
جمعہ کے روز قادیان کے دفاتر اور خصوصاً دفتر محاسب دو بجے تک بند رہتا تھا۔ دفتر والوں نے اپنے طور پر چٹھی رساں سے فیصلہ کر رکھا تھا کہ وہ دفتر کے منی آرڈر وہاں چھوڑ آتا اور دوڈھائی بجے جاکر واپس لے آتا۔ اکثر اوقات دفتر کا کلرک دیر سے آتا تو چٹھی رساں کی واپسی میں تاخیر ہو جاتی۔ جس کی وجہ سے ہمیں بھی دقت ہوتی۔ چنانچہ میں نے دو تین دفعہ چٹھی رساں کو تنبیہ کی کہ وقت پر واپس دیا کرے۔ ایک جمعہ کو وہ تقریباً ساڑھے تین بجے روتا ہوا دفتر میں آیا اور بتایا کہ کلرک دفتر محاسب منی آرڈروں کی واپسی میں دیر کرتا ہے۔ آج میں نے اسے جلد واپس کرنے کو کہا۔ جس پر اس نے مجھے دفتر میں سب سٹاف کے روبرو مارا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس دفتر کا کوئی آدمی تمہاری شہادت دے سکتا ہے۔ اس نے کہا مجھے امید نہیں کہ اس کلرک کے خلاف کوئی سچی شہادت بھی دے۔ میں نے اس سے تحریری بیان لے کر ناظم دفتر محاسب کو بھیج دیا۔ چونکہ محکمانہ کاروائی تو بغیر شہادت کے فضول تھی۔ میں نے یہ سوچا کہ ان کی دیانت وتقویٰ کا ہی امتحان ہو جائے گا۔ ڈاکٹر رشید الدین، مرزامحمود صاحب کے خسر ان دنوں دفتر کے انچارچ تھے۔ بیان کے ساتھ میں نے یہ لکھ دیا کہ جب آپ اس معاملہ کی تحقیقات کریں تو چٹھی رساں کو اور مجھے بھی بلوالیں۔ چند روز تک اس کا کوئی جواب نہ آیا۔ میری دوبارہ یاد دہانی پر مجھے جواب ملا کہ میں