کون تھا جو اس فرشتہ کی بات کا انکار کرتا۔ مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ حیران تھے یہ کیا ہوگیا۔ مگر ؎
اے زر تو خدا نہیں ولے بخدا
ستار العیوب وقاضی الحاجاتی نانا جان کی دی ہوئی رقم کام کر گئی۔ اب مولوی محمد علی صاحب کو اس کے سوا چارہ ہی کیا تھا کہ اپنے رفقاء کو ساتھ لے کر قادیان سے رخصت ہوتے۔ چنانچہ وہ دفتر محاسب کے کچھ کاغذات اور کچھ روپیہ لے کر لاہور پہنچے اور امیرالمؤمنین کا لقب حاصل کر کے لاہور کو اپنا دارالخلافہ بنایا اور وہاں سے اخبار پیغام صلح جاری کر کے اپنا علیحدہ سلسلہ شروع کر دیا۔ مرزاقادیانی کی نبوت کا انکار کر کے انہیں مجدد ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ نانا جان کی سیاست سے مرزامحمود احمد قادیانی کے لئے قادیان کا میدان صاف ہوگیا۔ اب دونوں پارٹیوں میں جنگ زرگری جاری ہے۔ اس دفعہ میرے قادیان آنے پر یہاں کا نقشہ بدل چکا تھا۔ مولوی نورالدین کی وفات کے بعد مرزامحمود احمد قادیانی ہزہولی نس کا خطاب حاصل کر کے تخت خلافت پر جلوہ افروز ہوچکے تھے۔ گھر سے باہر نکلنا موقوف ہوچکا تھا۔ کسی غیرآدمی کو بغیر اجازت ملنا دشوار تھا اور پوری شان خلافت سے قادیان میں حکومت کر رہے تھے۔ میرے جانے پر انہوں نے میرے پرانے رفیق ماسٹر محمد یوسف کو بھیج کر مجھے بلوایا۔ ہم دونوں وہاں پہنچے مرزامحمود قادیانی مکان کی دوسری منزل پر تشریف فرما تھے۔ علیک سلیک کے بعد آپ نے فرمایا۔ میں نے سنا ہے کہ آپ پہلے بھی یہاں رہ چکے ہیں۔ میں اس تجاہل عارفانہ پر حیران تھا۔ کیونکہ مرزامحمود صاحبزادگی کی حالت میں کئی مرتبہ ڈاکخانہ تشریف لائے اور کئی کئی منٹ تک میرے پاس بیٹھے تھے۔ مگر اب آپ کی کچھ عجب ہی شان تھی۔ پہلی ہی بات جو آپ نے مجھ سے دریافت کی یہ تھی کہ کیا قادیان میں بجائے ایک دفعہ کے، ڈاک دو دفعہ نہیں آسکتی۔ میں نے جواب دیا کہ ڈاک کا ٹھیکیدار اب اسی روپے لیتا ہے۔ امید نہیں محکمہ اور خرچ برداشت کر سکے۔ دوسری بات یہ دریافت کی کہ کیا یہاں تار گھر نہیں بن سکتا۔ میں نے کہا کہ آپ کی تمام مہینے میں بمشکل دس بارہ تاریں آتی ہیں۔ مگر آپ محکمہ کو لکھ دیں۔ شاید وہ دونوں باتوں کا انتظام کر دیں۔ ان دو باتوں کے علاوہ آپ نے تیسری بات کوئی نہیں کی۔ چنانچہ میں اور ماسٹر محمد یوسف صاحب واپس آئے۔ راستہ میں میں نے ماسٹر صاحب سے کہا کہ آپ مولوی نورالدین صاحب اور مرزامحمود احمد قادیانی کی ملاقات کا اندازہ کریں کہ کتنا فرق ہے۔ انہوں نے جتنی باتیں کی تھیں سب میرے فائدہ کی تھیں اور مرزامحمود نے سوائے اپنے