صاحب ایک قسم کے گوشہ نشین ہی ہوچکے تھے۔ مولانا کاخیال تھا کہ مولوی نورالدین صاحب کے بعد وہ خلافت کی گدی پر متمکن ہوںگے۔ کیونکہ ایک خاصی پارٹی ان کی پشت پر تھی۔ مگر انکی گوشہ نشینی، قرآن کا ترجمہ اور دفتر محاسب کی منیجری ان کے کسی کام نہ آئی اور مرزامحمود احمد قادیانی اپنے زور تقریر وتحریر نیز نانا جان کی فراست وسیاست کے باعث اپنا کام نکال لے گئے۔ اس کا مفصل ذکر بعد میں آئے گا۔
قادیان سے میرا تبادلہ
چونکہ میں قادیان میں عارضی طور پر لگا ہوا تھا۔ اس لئے چھ سات ماہ کے بعد میرا تبادلہ پھر امرتسر کا ہوگیا۔
بعثت ثانی
چونکہ قادیان میں میرے کام سے افسر بھی خوش تھے اور قادیان کے اکثر اصحاب سے میرے تعلقات بھی اچھے تھے۔ اس لئے ۱۹۱۶ء میں جب قادیان کی جگہ خالی ہوئی تو مجھے مستقل طور پر وہاں جانے کا حکم ہوا۔ یعنی چھ سات سال کے انتقال کے بعد قادیان میں پھر بعثت ثانی ہوئی۔ مولوی نورالدین صاحب وفات پاچکے تھے اور مرزامحمود تخت خلافت پر متمکن تھے۔ ان کے خلافت حاصل کرنے کا قصہ بھی لطف سے خالی نہیں۔ نانا جان جو پرانے سیاستدان اور دوراندیش آدمی تھے۔ انہوں نے مولوی محمد احسن صاحب امروہی کو ان کے لڑکے محمد یعقوب کی شادی پر کافی روپیہ بطور قرض دے کر اپنا مرہون احسان کر رکھا تھا کہ یہ وقت ضرورت کام آئے گا۔ کیونکہ مرزاقادیانی کا الہام تھا کہ آسمان سے میرا نزول دو فرشتوں کے کندھوں پر ہوا ہے۔ جن میں سے ایک مولوی نورالدین اور دوسرا مولوی محمد احسن امروہوی ہے اور یہ تھا بھی درست۔ کیونکہ مرزاقادیانی کا نزول وصعود ان دونوں مولویوں کا مرہون منت ہے۔ ورنہ نبوت تو کجا وہ ایک معمولی عالم کی حیثیت بھی نہ رکھتے تھے۔ خیر! مولوی نورالدین صاحب کے انتقال کے بعد جب خلافت کا جھگڑا شروع ہوا تو لاہوری پارٹی مولوی محمد علی صاحب کے حق میں تھی اور جو لوگ میاں محمود احمد کے خطابات وغیرہ سن چکے تھے۔ وہ میاں صاحب کے حق میں تھے۔ اس وقت نانا جان نے مولوی محمد احسن صاحب کو اپنا احسان بتایا اور مدد کی درخواست کی۔ مولانا محمد احسن صاحب نے غنیمت سمجھا کہ اس صورت میں قرض کی بلا تو سر سے ٹلے گی۔ چنانچہ وہ ایک سبز رنگ کا کپڑا لے کر جلسۂ عام میں تشریف لے آئے اور فرمایا کہ بھائیو! تم کو مبارک ہو۔ رات حضرت مرزاقادیانی نے مجھے یہ فرمایا ہے کہ یہ سبز دستار میاں محمود احمد کے سر پر باندھ دو۔ وہی ہمارا جانشین ہوگا۔ اب