میں نے بڑے میاں سے عرض کیا کہ ہم سے تو حقہ نوش بھنگی اور شرابی ہی اچھے ہیں کہ چند روز میں کئی اپنے ہم خیال پیدا کر لیتے ہیں۔ کیا ہم میں سے ہر شخص دو دو چار چار نمازیوں کو ساتھ نہیں لا سکتا کہ تعداد پوری ہو جائے۔ اس وقت قادیان میں سوائے ڈاکخانہ کے کوئی دوسرا سرکاری محکمہ نہ تھا۔ نمازیوں کے لئے میری یہ عرض گویا ایک سرکاری حکم یا ان کی حوصلہ افزائی کا سبب ہوا۔ کیونکہ قادیان کے قریب مسلمانوں پر قادیانی بھائیوں نے مختلف قسم کے دباؤ ڈال کر انہیں قریب قریب بے حس کر دیا ہوا تھا۔ الحمدﷲ! کہ میری یہ آواز ضائع نہ گئی۔ اگلے جمعہ چھ سات آدمی میں ہمراہ لے گیا۔ باقی مقتدی بھی چند ایک مسلمانوں کو ہمراہ لے آئے۔ میں نے قاضی عنایت اﷲ صاحب امام مسجد کی اجازت سے وہاں جمعہ میں ختم نبوت اور دعویٰ مسیحیت پر تقریر کا سلسلہ شروع کر دیا۔
تیسرے چوتھے جمعہ میں مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھر گئی۔ اہل حدیث بھائی جو علیحدہ مسجد میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ وہ بھی سب ادھر آنا شروع ہوگئے۔ کیونکہ میں فروعی مسائل میں نہ پڑتا تھا۔ چند جمعوں کے بعد یہ حالت ہوگئی کہ ہمیں مسجد کی توسیع کرنی پڑی۔ گرچہ اس میں بھی قادیانی دوستوں نے بہت سی رکاوٹیں پیدا کیں۔ مگر الحمدﷲ کہ مسلمانوں کو اس میں کامیابی ہوئی۔
نانا جان
مرزاغلام احمد قادیانی کے خسر میر ناصر نواب عجب بامذاق انسان تھے۔ تمام قادیانی انہیں نانا جان کے لقب سے پکارتے تھے۔ ان دنوں انہوں نے دارالضعفاء کے لئے اپنی جماعت والوں سے چندہ کی اپیل کر رکھی تھی اور باہر سے چندہ کافی مقدار میں آرہا تھا۔ ڈاک کی تقسیم کے وقت آپ بنفس نفیس ڈاکخانہ کی کھڑکی پر تشریف لاتے اور فرماتے کہ سائل حاضر ہے کچھ ملے گا۔ چونکہ ڈاکخانہ کی عمارت ان کی صاحبزادی یعنی مرزاقادیانی کی بیوی کے نام پر تھی۔ جس کا کرایہ بھی وہ خود اپنے دستخطوں سے وصول کیا کرتیں تھیں۔ اس لئے میں بھی اکثر یہ کہہ دیا کرتا تھا کہ آپ تو ڈاکخانہ کے مالک ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے ایک شعر بطور نصیحت مجھے لکھوایا۔ جو میں نے نہ ان سے پہلے کسی سے سناتھا اور ان کے بعد۔ جس سے اس جماعت کی ذہنیت پورے طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ وہ شعر یہ ہے۔
خوک باش وخرس باش باسگ مردار باش
ہرچہ خواہی باش لیکن اند کے زردار باش
یعنی سور بن یا ریچھ بن اور کتے کی طرح مردار بن جو کچھ دل چاہے بن۔ لیکن تھوڑا