انہیں ہر چند ٹالا کہ میں بڑے بڑے علماء کا درس سن چکا ہوں اور دوسرے مجھے فرصت بھی کم ہے۔ مگر ان کے زیادہ اصرار پر ایک روز میں ان کے ہمراہ درس میں شامل ہوا۔ اس وقت مولوی صاحب حضرت زکریا علیہ السلام کا بیان فرمارہے تھے کہ جب حضرت زکریا علیہ السلام بوڑھے ہوگئے تو دعا کی کہ یا الٰہی میں بوڑھا ہوگیا ہوں۔ قویٰ کمزور ہوچکے ہیں۔ ہڈیاں سست پڑ گئی ہیں۔ سر کے بال بھی سفید ہوچکے ہیں۔ تو اپنے رحم وکرم سے مجھے فرزند عطا فرما۔ جو میرا اور یعقوب کی اولاد کا وارث ہو تو اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم دن رات تسبیح وتحلیل کرو۔ میں تم کو فرزند عطا کروں گا۔ اس کا نام یحییٰ علیہ السلام رکھنا اور اس نام کا پہلے کوئی پیغمبر نہیں گذرا۔ چنانچہ مولوی صاحب نے یہ تمام قصہ بیان کر کے فرمایا کہ میری طرف دیکھو کہ جب میں جوان تھا۔ مجھے اولاد نرینہ نصیب نہ ہوئی۔ مگر اب بڑھاپے میں مرزاقادیانی پر ایمان لاکر تسبیح وتحلیل کی برکت سے اﷲتعالیٰ نے مجھے دو فرزند عطاء فرمائے۔ مولوی صاحب نے اسے مرزاقادیانی کا معجزہ ثابت کیا۔ جس سے تمام قادیانی حاضرین کے ایمان میں ایک تازگی محسوس ہونے لگی اور سب جھومنے لگے۔ میں نے اپنے ہمراہ ہی سے کہا کہ قران حکیم میں صرف الفاظ ہیں کہ ’’کانت أمراتی عاقرا‘‘ کہ (میری بیوی بھی بانچھ ہے) مگر مولوی صاحب کی اہلیہ تو ماشاء اﷲ ابھی نوعمر ہیں۔ اگر اس کا بانچھ ہونا تم ثابت کر دو تو میں آج ہی تمارا ہم خیال ہونے کو تیار ہوں۔ مگر ایسا ثابت کون کرتا۔ اس کا مجھے اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ پھر انہوںنے درس میں جانے کے متعلق کبھی گفتگو نہ کی اور مجھے معلوم ہوگیا کہ مولوی صاحب کس قدر غلط بیانیوں سے کام لیتے ہیں اور کہ ان کو اپنے معتقدین کی کم علمی اور خوش فہمی کا خوب اندازہ ہے۔
قادیان میں پہلی نماز جمعہ جمعہ کے روز جب میں مسلمانوں کی مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے گیا تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی کہ جمعہ مسجدمیں صرف پانچ نمازی ہیں اور قاضی عنایت اﷲ صاحب جو اس مسجد کے امام ہیں۔ مولوی عبدالکریم سیالکوٹی (قادیانی) کے مطبوعہ خطبہ کے اشعار پڑھ رہے ہیں۔ نماز ختم ہونے پر ایک بڑے میاں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ بھائیو! جب تک دس نمازی نہ ہوں نماز جمعہ جائز نہیں۔ میں دو تین جمعہ سے یہی حالت دیکھ رہا ہوں۔ بہتر ہے کہ آئندہ سے نماز جمعہ ملتوی کر دو۔ (یہ بڑے میاں مرزاسلطان احمد افسر مال کے منشی تھے جو مرزاقادیانی کی پہلی بیوی سے تھے اور مرزاقادیانی پر عقیدہ نہ رکھتے تھے۔ ان کے مرنے کے بعد یہ مشہور کیاگیا کہ آخر وقت وہ مرزاقادیانی پر ایمان لے آئے تھے۔ واﷲ اعلم!)