میری ابتدائی ملازمت سپرنٹنڈنٹ ڈاکخانہ امرتسر ڈویژن کے دفتر سے شروع ہوئی اور ملازمت کا کچھ عرصہ سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں ہی گزارا۔
مرزاقادیانی کی وفات
جس روز مرزاقادیانی لاہور میں فوت ہوئے۔ اس دن میں اتفاق سے رخصت پر بٹالہ آیا ہوا تھا۔ اسی روز صبح چھ بجے کے قریب تایا صاحب غریب خانہ پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں۔ مگر تم کہو گے کہ تایا ستر (پچہترہ) گیا ہے۔ اس وقت ان کی عمر ایک سو پانچ برس کی تھی۔ میں نے عرض کی کہ نہیں آپ وہ بات ضرور بتاویں۔ فرمایا کہ مجھے رات ایسا معلوم ہوا کہ مرزاغلام احمد قادیانی لاہور سے بخیریت قادیان واپس نہیں جائے گا۔ میرے چہرے پر کچھ مسکراہٹ کے آثار دیکھ کر فرمانے لگے کہ وہی بات ہوئی نہ، میرے ایک اور بزرگ پاس بیٹھے تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ ابھی بچہ ہے۔ اسے کیا معلوم کہ اﷲتعالیٰ اپنے بندوں کو ایسے اسرار سے مطلع کر دیتا ہے۔ چنانچہ ابھی دن کے ساڑھے دس بجے تھے کہ شیخ عبدالرشید صاحب کو جو ہمارے پڑوسی اور مرزاقادیانی سے عقیدت رکھنے والے تھے۔ لاہور سے تار آیا کہ مرزاقادیانی کا لاہور میں دن کے نو بجے انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی نعش کو رات کی گاڑی بٹالہ لایا جارہا ہے۔ اسے قادیان لے جانے کے لئے انتظام کر چھوڑیں۔
قادیان میں ملازمت
۱۹۱۰ء میں محکمہ کی طرف سے مجھے قادیان کی سب پوسٹ ماسٹری کا حکم ملا۔ میں نے سپرنٹنڈنٹ سے گذارش کی کہ قادیان کی فضا میری طبیعت اور حالات کے موافق نہیں۔ میرا وہاں کا تبادلہ منسوخ کیا جاوے۔ کیونکہ پہلے تو امرتسر میں صبح کو استاذی حضرت حاجی الحرمین الشریفین مولانا مولوی نور احمد صاحب نور اﷲ مرقدہ کے درس میں شامل ہوا کرتا تھا اور شام کو جب وہ طالب علموں کو حدیث وقفہ کی تعلیم دیاکرتے تھے۔ اس میں بھی شامل ہوجایا کرتا تھا۔ اس کے بعد حضرت مولانا مولوی غلام محی الدین صاحبؒ نے مسجد خیرالدین میں صبح کے وقت درس قرآن کے علاوہ حدیث وفقہ کی تعلیم بھی شروع کر دی تھی اور مولانا مولوی محمد حسن صاحبؒ اس درس گاہ میں نائب مدرس تھے۔ ایسے حالات میں مجھے امرتسر چھوڑنا گوارا نہ تھا۔ مگر حکم حاکم مرگ مفاجات سے کم نہیں ہوتا۔ مجھے دسمبر ۱۹۱۰ء کو امرتسر چھوڑنا پڑا۔
امرتسر سے فارغ ہوکر میں نے دو چار روز بٹالہ میں گزارے اور پھر بال بچوں کو ہمراہ لے کر قادیان پہنچا۔ وہاں سید عبدالغنی شاہ صاحب سب پوسٹ ماسٹر تھے۔ ان کو فارغ کیا۔ ان