اسی طرح تفسیر ابوالسعود میں ہے: ’’والصحیح ان اﷲ تعالیٰ رفعہ من غیر وفاۃ ولا نوم کما قال الحسن وابن زید وھو اختیاری الطبری وھو الصحیح عن ابن عباس (ابوالسعود)‘‘ {اﷲتعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر موت اور نیند کے اٹھایا۔ جیسے کہ حسن بصری اور ابن زید نے کہا اور یہی علامہ امام ابن جریر طبری نے اختیار کیا ہے اور یہی امر ابن عباسؓ سے صحیح طور پر ثابت ہے۔}
حاصل یہ کہ ’’توفی بالموت‘‘ کا تحقق ’’بعد نزول من السماء الیٰ الارض‘‘ کے ہوگا۔ اگرچہ آیت میں مقدم ہے اور ’’رفع الیٰ السمائ‘‘ کا تحقق قبل موت کے ہوا۔ اگرچہ ذکر میں مؤخر ہے۔ کیونکہ ترتیب ذکری اور ترتیب وقوعی میں مطابقت ضروری نہیں۔ اس کے نظائر قرآن مجید اور حدیث شریف اور کتب ادب میں بکثرت ہیں اور کتب نحواس سے بھری پڑی ہیں کہ واؤ حرف عطف میں ترتیب نہیں ہوتی۔ جیسے آیت ’’یمریم اقتنی لربک واسجدی والرکعی مع الراکعین (آل عمران:۴۳)‘‘ میں سجدہ کو رکوع سے پہلے ذکر کیا۔ حالانکہ ترتیب خارجی وعملی میں متاخر ہوتا ہے۔
تفسیر ابن کثیر اور فتح البیان میں بذیلی آیت: ’’وانہ لعلم للساعۃ (زخرف:۶۱)‘‘ میں بھی حضرت ابن عباسؓ کا مذہب دوبارہ نزول ثانی نقل کیا ہے۔
اور نیز فتح الباری اور قسطلانی شروح بخاری میں ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ (النسائ:۱۵۹)‘‘ میں ’’قبل موتہ‘‘ کی ضمیر کے بارے میں لکھا ہے کہ بسند صحیح ابن عباسؓ کا مذہب یہی ہے کہ یہ ضمیر عیسیٰ علیہ السلام کی طرف پھرتی ہے اور جو اس ضمیر کی بابت ابن عباسؓ سے یہ منقول ہے کہ کتابی کی طرف پھرتی ہے۔ اس کو ضعیف لکھا ہے۔
پس صراحۃً ثابت ہوگیا کہ حضرت ابن عباسؓ کا اعتقاد یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں پھر نازل ہوںگے اور پھر اس کے بعد فوت ہوںگے۔
پس ابن عباسؓ کے قول ’’ممیتک‘‘ سے ’’متمسک‘‘ ہونا اور ان کے اپنے اعتقاد مصرح درباب ’’رفع الیٰ السماء ونزول الیٰ الارض فی اٰخر الزمان‘‘ کی طرف توجہ نہ کرنا بلکہ اس کے خلاف اعتقاد رکھنا ’’افتؤمنون ببعض الکتاب وتکفرون ببعض (البقرہ:۸۵)‘‘ کا ارتکاب نہیں تو اور کیا ہے؟